اُستاد اور شاگرد کا رشتہ لازوال رشتہ ہے۔ شاگرد میں سیکھنے کی طلب نہ بھی ہو پھر بھی خلوص، محبت اور علم کا دریا اُستاد کے روپ میں ہمیشہ آپ کا منتظر رہتا ہے۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی آنے سے قبل ہی ہم اپنے ”اُستادوں کے اُستاد“ ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر عبدالرؤف ، ڈاکٹر علمدار بُخاری، ڈاکٹر نجیب جمال اور ڈاکٹر روبینہ ترین کے رُعب علم سے مِس شائستہ جمال اور مسز عابدہ سلیمی کے ذریعے مانوس ہوچکے تھے۔ کلاسز کا آغاز ہوگیا۔ ابتداء میں ہر طالب علم متاثر کن تاثر چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ رانا شہباز باادب، باملاحظہ، قاضی عابداور داؤد ربانی ”پڑھاکو“ مُبشر حسن، شائستگی اور سیماب ماڈل نما تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ نذر بھٹی ۔۔۔ گپی آدمی (بقول ڈاکٹر انوار احمد) کا تعارف یہ ہوا کہ دورانِ کلاس سب کا دھیان اُستاد کی طرف ہوتا اور نذر بھٹی کا دھیان لڑکیوں کی طرف۔۔۔ آخری قطار کی کرسیوں کی سہولت کا خوب فائدہ اُٹھاتا۔ شروع میں میل جول کی سہولت کیلئے فرح محمود نے جھٹ پٹ بھائی بنا کر لاشعوری طور پر اس کی مدد کردی پس پھر یہ ہوا کہ فرح محمود کے ہوسٹل گروپ کے توسط سے ہوتے ہوئے نذر بھٹی کی گپ بازی کا دائرہ وسیع تر ہوتاگیا۔ ابتداء میں ہماری کلاس کی لڑکیا ں ” ایک جھُنڈ“ کا تاثر لئے ہوئے تھیں۔ رفتہ رفتہ نقرئی قہقہوں ، شرارت اور تازگی اُبھر کر سامنے آگئی اور ہم بھی سچ مچ ” اُردو والیاں“ بن گئیں۔
نذر بھٹی کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی گرم جوشی، خلوص، بے تکلفی اور شرارتی پن پر مبنی ہیں۔ کلاس میں سب سے پہلے ” مجلسی پن“ کا مظاہرہ "Great Sahiwalin Group”سے کیا ، باقاعدہ الیکشن مہم کی طرح پمفلٹ تقسیم کئے۔
نذر بھٹی سب سے زیادہ محبت سگریٹ سے کرتا ہے اور چائے اُس کا دوسرا پیار ہے۔ محترم سرساجد خاں صاحب نے فیض احمد فیض پڑھانے کیلئے گروپ سٹڈی تشکیل کی تو اچانک نذر بھٹی نے فرمائشی انداز سے کہا۔ محترم سر میرا موضوع ہوگا ”فیض احمد فیض اور سگریٹ “ کیونکہ فیض احمد فیض کی لیلیٰ مادرِ وطن ہے تو میری لیلیٰ میری سگریٹ ہے۔ اپنے اماں ابا کا انوکھا لاڈلا” نگری “ ایک ہی جملے میں پنجابی ،اُردو اور انگریزی کے” ٹوٹے ‘‘لہجے کے تغیر کیساتھ فطری انداز میں جوڑ کر محفل برپا کردیتا ہے۔ ”لے دس “ ، ” ہُن دس“ تو اُس کا تکیہ کلام ہے اور یہ تکیہ ہر محفل میں لگا کر میلہ سجا دیتا ہے۔ اِس لیے ہر لحظہ ” چل میلے نوں چلیے” کی ترنگ ہی رہتا ہے۔ ترقی یافتہ بنجارہ ہر محفل میں میٹھی میٹھی بولی بول کر کانوں میں رس گھولتا ہے۔
ہماری ہم جماعت سمیرا خان باپردہ طالبہ تھیں۔ خوبصورت رنگت اور غزالی آنکھوں کے باعث اس کا چہرہ دیکھنے کی طلب مزید بڑھ جاتی۔ تونسہ ٹرپ گیا سمیرا خاں ، فریحہ ناز اور رخشندہ کے ہمراہ درخت کی اوٹ میں کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ اچانک دھڑام سے نذر بھٹی ان کے سامنے اِس طرح گرا کہ پتھر کی ٹھوکر سے اسے چوٹ لگ گئی مگر وُہ سمیرا کو دیکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ نذر بھٹی کی چوٹ کی افتاد سے گھبرا کر سمیرا اپنا نقاب بھول گئی اور سمیرا کا چہرہ دیکھ کر بھٹی اپنی چوٹ!
نذر بھٹی کی دوستی کے تانے بانے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی مصروفیت رابطہ ہے۔ ایئر لائن میں جاب کی وجہ سے اِس کی ملاقات بچھڑے ہوئے اساتذہ کرام، دوستوں، محلے داروں سے ہوتی رہتی ہے اور نذر بھٹی ہمیشہ ” چشم ما روشن، دِل ما شاد“ کی عکاسی کرتا ہے۔ اپنے ادارے میں بھی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ ہلہ گلہ، شور شرابہ، جلوس اور ہڑتال میں پرجوش شمولیت کے باعث اپنے ہی رشتہ دار صحافی نے نذر بھٹی کے خلاف ٹی وی پروگرام نشر کردیا۔
یونیورسٹی سے امتحانات کے بعد خصوصاً لڑکیوں کے رابطے کٹ گئے۔ سب اپنی اپنی زندگی میں نوکری، پڑھائی اور شادی کی مسافت میں مصروف ہوگئیں۔ اچانک ایئرپورٹ پر میرا اِس سے سامنا ہوگیا۔ نذر بھٹی کی نظر مجھ پر پڑی تو بھاگم بھاگ وارفتگی سے میری طرف بڑھا ۔ اپنی گود میں اُٹھائے ہوئے اپنی بیٹی کو آگے کرکے اور اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر میں نے اپنا تحفظ کیا۔ صد شکر کہ اِس وقت میرے ہمراہ میرے کھلے ذہن و دِل کے مالک میرے جیٹھ تھے۔ مل کر چائے پینے کے دوران ہی دوستی کرنے کی جادوگری کے باعث سلام و دُعا پکی دوستی میں بدل چُکی تھی۔ میرے شریک حیات امجد مرزا کے ساتھ اتنی بے تکلفی ہے کہ فون پہ گپ شپ کی روانی میں مجھے ثمینہ بھابھی کہہ دیتا ہے۔
لاہور ایف سی کالج میں گُزشتہ دِنوں سر نجیب جمال سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ تقریب میں جوش ملیح آبادی کی رباعیاں اور سرنجیب جمال صاحب کا جان لیوا لہجہ۔۔۔آہاہاہا۔۔۔واہ واہ سبحان اللہ کی سب سے بلند آواز نذر بھٹی کی تھی۔ تقریب کے اختتام پر سر نجیب نے دستِ شفقت ہم دونوں کے سر پر رکھا اور کہا کہ کاش اسی عقیدت اور احترام سے تُم دونوں کلاس میں بھی لیکچر سُن لیا کرتے۔۔۔اے کاش۔۔۔
نذر بھٹی ایک اصلی آدمی ہے جعلی نہیں۔ خوبیوں میں بھی سچائی اور خامیوں کے اعتراف میں بھی سچائی۔ دوستوں میں مساوات کا قائل ہے درجہ بندی کا نہیں۔ سب کو ” گریڈ ون “ میں شُمار رکھتا ہے۔ منافقت اور مکاری سے دور ہے ۔ محبتوں میں خوشحال اِنسان دوسروں میں بھی محبت بانٹتا ہے۔
ہماری کلاس فیلو اور مشترکہ دوست فرحت مشتاق (مسز لطیف اعجاز صاحب) سے امریکہ تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ بیانگِ دہل اعلان کرتا ہے کہ میں ” رَن مُرید “ہوں۔ اِس اعتراف سے زندگی بے حد سہل ہوجاتی ہے اور میرے پیر اعجاز لطیف صاحب ہیں۔ ریفریشر کورس کیلئے امریکہ آتا جاتا رہتا ہے۔
20سالہ ازدواجی زندگی گُزارنے کے باوجود نذر بھٹی کے مزاج کا چُلبلا پن اور شرارتی انداز بحال ہے۔ تو اِس کا سبب اُس کی ملکہ عالیہ، مسز عالیہ نذر بھٹی ہیں۔ عالیہ بھابھی، سنجیدہ مزاج، باوقار اور مذہبی خاتون ہیں انہوں نے گھریلو ذمہ داریوں کو بے حد خوش اسلوبی سے نبھایا اور بچوں کے ساتھ اِس کی بھی تربیت کرڈالی۔ بِلاشُبہ نذر بھٹی ماں کا بے حد تابع اور فرمانبردار ہے۔ ۔۔۔ لیکن اپنے بچوں کی ماں کا۔۔۔
فیس بک کمینٹ