اسلام آباد : دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور سربراہان مملکت کی آمد کے پیش نظر شہر میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کو بند کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اس دوران شہر میں عام شہریوں کی آمد و رفت بالکل نہ ہونے کے برابر ہو گی۔یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہونے جا رہا ہے جب ملک کے مختلف حصے بدامنی اور دہشت گرد حملوں کی لپیٹ میں ہیں۔
منگل اور بدھ کو ہونے والی دو روزہ سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، روس کے وزیر اعظم میخائل میشوسٹن اور چینی وزیر اعظم لی کیانگ سمیت دیگر عالمی رہنما اجلاس میں شریک ہوں گے۔ وزیراعظم اجلاس کے موقع پر وفود کے سربراہوں سے اہم ملاقاتیں کریں گے جہاں اجلاس میں معیشت، تجارت، سماجی وثقافتی تعلقات، ماحولیات کے شعبوں میں تعاون پر بات ہوگی جبکہ تعاون کے فروغ سے متعلق اہم فیصلے اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری بھی دی جائے گی۔
اس سربراہی اجلاس سے ایک سے ڈیڑھ ہفتہ قبل دارالحکومت میں کشیدہ صورتحال رہی اور حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں احتجاجی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے نئے قوانین بھی متعارف کرا دیے۔حکومت نے رواں ماہ اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے بانی پاکستانی تحریک انصاف کے سینکڑوں حامیوں کو بھی گرفتار کر لیا تھا جہاں اس جماعت نے سربراہی کانفرنس کے باوجود ایک مرتبہ پھر 15 اکتوبر کو دارالحکومت میں احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملے نے ملک میں سیکیورٹی خدشات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا ہے جہاں علیحدگی پسند تنظیمیں چینی شہریوں کو معمول کے مطابق نشانہ بناتی رہتی ہیں۔اسلام آباد میں سربراہی اجلاس کے دوران سڑکوں پر فوج کی تعیناتی کی اجازت دے دی گئی تھی تاکہ سخت ترین سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنایا جا سکے۔
سیکیورٹی تجزیہ کار اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا کہ یہ اجلاس ایک ایسے ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے جسے محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کرتے کہا کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے وسیع حفاظتی انتظامات کیے ہیں اور یہ بات قابل فہم ہے کیونکہ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ اجلاس بغیر کسی ناخوشگوار واقعے کے پرامن طریقے سے گزر جائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں چین، بھارت، روس، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 16 مزید ممالک مبصر یا ڈائیلاگ پارٹنرز کے طور پر وابستہ ہیں۔بھارت کے سوا تمام رکن ممالک سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اجلاس میں حکومتی سربراہان بھیجیں گے جہاں بھارت نے اپنے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو اجلاس کے لیے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دعوت پر چین کے وزیراعظم لی کیانگ 14 سے 17 اکتوبر تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )