گزرا ہوا وقت بھولتاہے نہ بھلایا جا سکتا ہے، کجا یہ کہ انسان کی یادد اشت ہی جواب دے جائے۔ ہاں۔ البتہ تاریخ کے اوراق پر جمی د ھول اسے کچھ معدوم کر دے تو یادیں بھی ہلکی دھند کی تہہ میں اپنا آپ ڈھانپ لیتی ہیں، مگر زمانہ حال کے لمحہ موجود میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حالات ہلکی ہلکی دھند کی یہ تہہ اتار کر اسی پرانے ماحول کا منظر دکھانے لگتے ہیں۔
آج ایک بار پھر سیاسی جماعتیں ، مذہبی دھڑے اور علاقائی جتھے اکٹھے ہو رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر طاہر القادری کے گرد جمع ہو رہے ہیں اور مجھے سن ستر کی دہائی یاد آرہی ہے، جس میں 1970 ء کاالیکشن ہے،جس کے صاف شفاف اور غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ ہے۔1971 ء میں سقوط ڈھاکہ ہے،شیخ مجیب کے چھ نکات اس کا سبب بنے یا فوجی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور سیاست دانوں کی ہوس اقتدار ؟ متحدہ پاکستان کے لیے ان دونوں میں سے کون سی وجہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئی؟اس کا جواب جتنا اہم ہے اتنا ہی متنازعہ بھی ۔ اور 1977 ء میں حکومت وقت کے خلاف بننے والا۔۔ نو ستاروں ۔۔ کا اتحاد ہے جس نے ایک منتخب جمہوری حکومت کے مارشل لاء پر خاتمے کواپنی کامیابی قرار دیا ۔ایسی کامیابی جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ایک ہی دہائی میں وقوع پذیر ہونے والے ان سانحات کا عکس لمحہ موجود کے کینوس پر پھر ابھرتا ڈوبتادیکھ رہا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ ” یاد ماضی عذاب ہے یارب“ ۔ مگرپھر بھی۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا،کی دعا مانگنے کی ہمت نہیں ہے۔
خیر۔طاہر القادری کی بات کریں تووہ اپنی ذات میں ایک مکمل” پیکج “ ہیں۔وہ مذہبی سکالر بھی ہیں اور سیاست دان بھی۔ پروفیسر بھی ہیں اور ڈاکٹر بھی ۔ علامہ بھی ہیں اور شیخ الاسلام بھی۔پاکستانی بھی ہیں اور کینیڈین بھی۔ اور شعلہ بیاں مقرر تو وہ ہیں ہی۔ اتنے کہ ان کی شعلہ بیانی ، ان کے پیروکاروں کو کفن پہننے اور قبریں کھودنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ شاید ایسے ہی نا بغہ روز گار شیخ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۔۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی ۔ہمارے سابقہ حکمران اگر لندن اور دبئی کے بغیر نہیں رہ سکتے تو طاہر القادری کا کینیڈا کے بغیر چارہ ہے نہ گزارہ۔
اتنی گونا گوں خصوصیات کے حامل طاہر القادری کی کچھ خداداد صلاحیتوں اور کچھ” مفاداتی مفاہمتوں “ کی بدولت ماڈل ٹاؤن لاہور میں قائم منہاج القرآن سیکٹریٹ کو ” نائین زیرو“ کاسٹیٹس حاصل ہونے جا رہا ہے۔میں نے ستر کی دہائی کا ذکر کیاہے ۔آپ ذراصدر زرداری کے دور کو حکومت یاد کر لیجیئے، کل کی بات ہے ،جب طاہر القادری کے دھرنے نے اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کی ریت ڈالی تھی اور زرداری کی زیر سر پرستی چلنے والی حکومت کو ” یزیدی حکومت “اور اپنے قافلے(دھرنے) کو ” قافلہ حسینی“ قرار دے کر یزیدیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھی صورت حال پروین شاکر کے اس شعر کے مطابق یہ معلوم ہوتی تھی کہ” بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا ۔ ۔ میں سمندر دیکھتی ہوں ،تم کنارہ دیکھنا“ ۔اور پھر اشاروں ،کنایوں میں یوں ہوا کہ طاہر القادری کنٹینر میں بنے ریسٹ روم سے نکل کر کینیڈا جانے والے جہاز کی نششت پر بیٹھ گئے۔اور ہم سوچتے رہ گئے کہ ” نہ وہ غزنوی کی تڑپ رہی۔۔ نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں “ ۔یہ” تڑپ “ البتہ گزشتہ دنوں اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے والے دھرنے میں عروج پر نظر آئی،جس کی ” ثابت قدمی “ نے حکومت کے قدم لڑکھڑا دیئے اور ڈگمگاتی حکومت کو لگ پتہ گیا کہ سیاسی و مذہبی دھرنے کا فرق صاف ظاہر ہے ۔
اشارے کا ذکر تو یار لوگ 2014 کے دھرنے میں بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔مگر ہوا یہ کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر” سٹک “ کے ایک اشارے پر دوکان اپنی بڑھا گئے ۔اب ایک بار پھر بادباں کھلنے سے پہلے کے اشارے ،سمندر کی گہرائی اور منزل سے دوری کی خبر دے رہے ہیں۔
یادوں کے دریچے کھلتے ہیں تو سامنے وہی منظر ہے۔ ماضی ہے جوحال بن کر نگاہوں میں رقصاں ہونے لگتا ہے۔ 1970 کے الیکشن میں سیاست دانوں کی دھما چوکڑی۔ حکومت وقت کی ہٹ دھرمی، ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی حقوق کی جنگ، جو مرکزی فوجی حکمرانوں کی نظر میں بغاوت اور غداری ٹھہری۔1971 میں بزور قوت ” بغاوت اور غداری“ کچلنے کی ناکام کوشش۔ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی رسم۔ایک لاکھ کے قریب دشمن کی قید میں جانے والے جنگی قیدی۔اس وقت کے پاکستانی عوام کے لیئے یہ سب آج بھی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔اس بھیانک خواب سے نظریں چراؤں تو 1977 سامنے آ جاتا ہے۔ الیکشن کاا نعقاد۔ نتائج پر دھاندلی کا شور۔سڑکوں پر احتجاج۔ سیاسی احتجاج سے بات نہ بنی تو۔ نفاذ نظام مصطفےٰﷺکا نعرہ۔ عوامی احتجاج پر قابو پانے کے لیئے حکومت کا فوج کو طلب کرنا وغیرہ وغیرہ۔ نتیجہ یہ کہ فوجی سربراہ نے عوامی احتجاج پر قابو پانے کی بجائے جمہوری حکومت کے منتخب وزیر اعظم کو ” قابو“ کر کے اڈیالہ جیل سے پھانسی گھاٹ تک پہنچا کر دم لیا۔اور میرا جمہوری پاکستان آمریت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ آج میں سوچ رہا ہوں۔ کیاوقت کا پہیہ الٹا چل رہا ہے؟ میرے وطن کی تاریخ کیا اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرانے جا رہی ہے؟سپریم کورٹ کے ایک عزت مآب جج صاحب نے فرمایا تھا ۔۔۔ مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے۔۔۔ ۔دکھ یہ ہے کہ ہمیں توراہزنوں اور راہبروں میں فرق ہی معلوم نہیں۔