شاکر حسین شاکرکالملکھاری
جاوید ہاشمی کے گھر تالا لیکن زبان پر نہیں(2): کہتا ہوں سچ / شاکر حسین شاکر

جاوید ہاشمی ایک مرتبہ پھر میدان میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مسلم لیگ ن ان کو کسی اچھے عہدے پر فائز کرے۔ وہ اپنا وقت لکھنے پڑھنے اور اپنی یادیں شیئر کرنے میں گزاریں۔ لیکچر دیں، سیاست کے نئے کھلاڑیوں کے لیے کوئی اکیڈمی بنائیں۔ کسی دن لگے ہاتھوں وہ یہ راز بھی افشا کر دیں کہ ن لیگ چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں کیوں گئے پھر تحریکِ انصاف کو خیرباد کیوں کہا؟ ابھی تک میاں صاحبان ان کو قبول کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے واقعی دل سے معاف کر دیا ہے تو پھر ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی پر اس خاندان کی نمائندگی کیوں نہ تھی؟ ویسے تو اور بھی بے شمار سوالات ہمارے ذہن میں سمائے ہوئے ہیں اس کے لیے پھر کبھی لکھیں گے ابھی ان کو نئے گھر کی مبارکباد دیتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ وہ پُرتکلف چائے پر اپنے گھر کب بلا رہے ہیں؟ اور ہاشمی صاحب پُرتکلف کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے؟ کہ اس چائے میں ہماری خواہش ہو گی کہ آپ کے دیرینہ حُب دار منیر ابنِ رزمی، ڈاکٹر نوید صادق اور دیگر احباب بھی ہوں۔ منیر ابن رزمی کا مَیں نے اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے آپ کے نئے گھر میں منتقل ہونے پر جو تحریر لکھی وہ اتنی خوبصورت ہے کہ وہ تحریر بھی ہم اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس کالم میں شیئر کر رہے ہیں۔
”بانسوں والی کوٹھی …….. مکرم و معظم مخدوم جاوید ہاشمی سے تعلق اور رابطہ راتوں رات بانس کی طرح یکدم نہیں ابھرا۔ نصف صدی کے قریب قریب کا فسوں ہے۔ برادری، نسل، زبان، مقامیت، معاشرتی اور سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہاں اماں جان (جنت مکیں) کے لیے یہ گھرانا چشمہ حقانی رہا۔ کچی عمر میں پکے جذبات اور اصیل آرزوؤں کے نخلِ تمنا کی ثمریابی کے لیے جھنگ کے دریائے عشق کو کجاووں کی لمبی قطار کے ساتھ اپنے والدین کی چھتر چھاؤں میں اٹا گھٹا کے ساتھ دربار میں حاضری اور حضوری ساری زندگی نہیں بھولیں۔ پھر وسائل کی چنگیر میں پھول ہی نہیں آئے اور جب نخلِ تمنا کی ہریالی کا موسم آیا تو موت کے سیلاب میں نقشِ ناتمام ڈوب گئے۔
اول اول ان کا نام نامی ہوا تو ملتان کی طلبا سیاست میں قدآور ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں شریکِ سفر ہوئے۔ پھر جامعہ پنجاب، بنگلہ دیش نامنظور تحریک، جیل کے میل، عملی سیاست، قید و بند، اقتدار کے جھولے اور اپوزیشن کے رولے،
سجن دے ہتھ بانہہ وی ساڈی
کی کر اکھاں چھڈ وے اٹریا
مخدوم جاوید ہاشمی طالب علمی کے زمانے سے لمحہ موجود تک میرے محبوب اور پسندیدہ اور مثالی قائد ہیں۔ ان کے برادرِ خورد مخدوم مختار ہاشمی میرے بی۔اے کے زمانے میں ایسے دوست بنے کے موت کا پیغام آنے سے نصف گھنٹہ قبل تک چیچہ وطنی میں ان کا پُرجوش استقبال دیکھنے کے متمنی اور سندیسہ میں تر و تازہ تھے۔ مجھے اُن کی بے پناہ محبت ہمیشہ ملی۔ ایک لحاظ سے وہ میرے مربی بھی ہیں۔ میری شکستگی میں شیفتگی کا دروازہ بنے۔ ملتان کینٹ میں بانسوں والی اُجاڑ اور سنسان کوٹھی خریدی تو مجھے کشاں کشاں وہاں لے گئے۔ تعمیر و تزئین نو میں میرے لیے ایک کمرہ سجایا کہ جب دل کرے ادھر تشریف رکھیو۔ میرے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کو خوبصورت بنانے میں اُن کی عملی مشاورت شامل رہی۔ میرے بڑے صاحبزادے کی بارات اپنے گھر سے لے کے چلے۔ ولیمہ چیچہ وطنی میں تھا تو مہمانوں کی اولیت میں شمار ہوئے اور سب سے آخر میں اپنے عزیزوں کے ساتھ واپس پلٹے۔
اب کینٹ والی رہائش گاہ چند وجوہ کی بنا پر قصہ ماضی بن جائے گی۔ مہمانوں کی آمد و رفت بہت زیادہ مشکلات اور عوامی رابطہ مہم میں دیکھی اور اَن دیکھی تکالیف نے نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ جہاں اُن کی دلہن بیٹی کو چار گھنٹے انتظار میں خجل خوار ہونا پڑے حالانکہ وہی وی وی آئی پی مہمان اُسی دلہن کی تقریب میں آ رہا ہو وہاں ہما شما کس شمار میں۔
مجھے نئی قیام گاہ کی زیارت کرائی جہاں مستقبل قریب میں ایلیٹ کلاس تو ضرور ہو گی مگر ضرورت سے زیادہ بے جا پابندیاں نہیں ہوں گی اور اُن کی نجی زندگی میں تانک جھانک کے امکانات معدوم ہوں گے۔ اس فقیر راہگذر کے لیے یہاں بھی ایک کمرہ تو بنایا گیا مگر مجھ جیسے تو ان کی آبائی حویلی مخدوم ہاؤس مخدوم رشید کو ترجیح دیں گے جو اُن کی تازہ رہائش گاہ سے پچیس منٹ کی ڈرائیو پر کھلے بازوؤں کی طرح بہار سمے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔ اور پھر وہاں ہاشمی صاحب کا ذاتی کتب خانہ چند قدم کی مسافت پر مجھے ان کے جدِامجد مخدوم عبدالرشید حقانی کے چشمہ حقانی کی یاد دلائے گا جو کروڑ لعل عیسن سے اقتدار کو ٹھوکر مار کر اس ویرانے میں آئے اور صدیوں بعد میری اماں اپنی معصوم اور الہڑ خوابیدہ جذبوں کے ساتھ سکینت کا جزیرہ تلاش کر پائیں۔ زیرِ نظر تصاویر مخدوم رشید کے درویش منش انسان دوست انسان کے گھر کی ہیں۔ جو مکان سے زیادہ مکین کی وجہ سے عزیز ترین ہے۔ اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھوں……..“
منیر ابن رزمی کی اس خوبصورت تحریر کے بعد جب ہم نے ایک دن گزرتے ہوئے جاوید ہاشمی کی ملتان والی رہائش گاہ (سابقہ) کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس برس ان کے پرانے گھر میں بہار کی وجہ سے جو پھول کھِلتے تھے وہ نہیں کھِلے کہ گھر کا مالی تو ہجرت کر چکا ہے۔ پودے کس کے لیے کھِلیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کے وہ پھول جو ہر سال ان کے آنگن میں کھِلا کرتے ہیں اس مرتبہ ان پھولوں کی آبیاری کرنے والے نے کسی دوسرے گھر کے پھولوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ بالکل کچھ یہی صورتِ حال ان کی سابقہ سیاسی جماعت مسلم لیگ کر رہی ہے۔ وہ اپنی سیاست کا پھولوں و کانٹوں سے بھرا ہوا چھابا لیے مسلم لیگ کے دوارے لے کر کھڑے ہیں۔ کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ان کے ہاتھ میں کانٹے ہیں، کوئی یہ محسوس کر رہا ہے کہ ان کے پھول مرجھا چکے ہیں۔ قارئین کرام یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود ہمیں بتائیں کہ ان کے ہاتھوں میں کیا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ