کل مجھے گھر سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک رکشہ دیکھا جس پر ایک پینا فلیکس تھا ” ماحول کو آلودگی سے پاک کریں ،درخت لگائیں اور دھوئیں والی گاڑیاں نہ چلنے دیں “۔ یہ دیکھنے میں ایک خوبصورت اور دلفریب پیغام تھا لیکن میری ساری مسر ت اس وقت جاتی رہی جب میں نےیہ دیکھا کہ میرے سامنے چلنے والی گاڑیوں میں سب سے زیادہ دھواں وہی رکشہ چھوڑ رہا تھا اور آواز بھی وہی رکشہ دے رہا ہے تھا ۔ میں حیراں تھا کہ جو مسیج دے رہا ہے کہ اصول پر عمل کرو و ہی اس اصول کو تو ڑر ہا ہے ۔اب میرا ذہن کچھ اور سوچ رہا تھا اب میرے نزدیک وہ رکشے والا ایک مثال تھا اور میری سوچ کا محور اور مرکز ہمار امعاشرہ تھا اور اس تصویر میں ہمارے معاشرے کا آدھا اور دو رخا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ میں نے مسجد سے لے کر ،مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور علماء کو سنا ۔ کسی ایک کے مسیج میں پر میں سوال نہیں اٹھا سکا کہ وہ غلط کہہ رہا ہے ۔میں نے اپنی زندگی میں کئی وزراء کی تقاریر سنیں مجھے کسی کی تقریر نے کبھی کوئی خامی نظر نہ آئی ۔ میں نے ایک چوکیدار سے لےکر ایک وزیرِاعظم تک سب کی تقاریر سنیں میں نہیں کہہ سکتا کہ اپنی باتوں اور مسیج میں مجھے کوئی غلط لگا ہو ۔ لیکن سوال یہ تھا کہ پھر خامی کہاں ہے ۔ہر آدمی اپنی باتوں میں مجھے مکمل ، دیانتدار،ایمان دار اور مخلص لگا۔میں نے اپنے اس مشاہدے میں ایک عجیب بات محسوس کی کہ ہم سب ٹھیک بولتے ہیں ۔ ٹھیک کرتے ہیں تو ہمارا معاشرہ کیوں آلودہ معاشرہ ہے ۔ آلودہ معاشرے سے میری مراد وہ معاشرہ جس میں جھوٹ سے لے کر ایک غیر تہذیب یافتہ معاشر ے میں پائی جانے والی ہر برائی ہے ۔ جو ہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی اکثر زینت بنے دیکھتے ہیں جس ہم خود شرمسار ہونے کی بجائے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور دنیا کو اپنے معاشرے کی جھلک دکھاتے ہیں۔ آلودہ معاشرہ معاشرے کی سب سے بری علامت میرے نزدیک یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد یہ سمجھتا ہو کی صرف و ہی سچائی کا علمبردار ہے ، اور باقی سارا معاشرہ مکرو فریب میں گھرا ہوا ہے ۔اور کیوں کہ وہ سچائی کا علمبردار ہے اس لئے وہ ہر رعایت کا مستحق بھی ہے ۔کچھ ایسا ہمارے اس رکشے والے بھائی کے ساتھ ہوا جس نے چار ،پانچ سو روپے لے کر ایک پینا فلیکس تو اپنے رکشے پر لگا لیا لیکن نہ رکشے والے نے سوچا کہ وہ کیا پیغام لے کر جا رہا ہے ۔ اور نہ لگوانے والے نے یہ سوچا کے وہ مسیج پہنچانے کیلئے کس گاڑی کا استعمال کر رہا ہے ۔ بس فرض پورا ہونا تھا ہو گیا ۔ اچھا ہے چلو فرض تو ادا ہوا ۔
خیر اس واقعے سے جو میں نے دوسرا نتیجہ نکالا کہ ہمیشہ دوسروں تو سچائی کی تلقیں کو اور خود تم اس کی زمہ داری مبرا ہوجا ئوآلودہ معاشرے کی دوسری علامت یہ ہے کہ نصیحت دوسروں کو کرو ۔ کیوں کے باقی سارا معاشرہ خراب ہے اس لئے تمہیں خرابی پیدا کرنے میں مسئلہ نہیں کیوں کہ معاشرہ ایسا ہے – اچھا ہے بھائی میں کیوں سچائی کا عملبردار ہونے کا نقصان اٹھائوں ۔ میں بھی بے ایمانی کرتا ہوں سارا مانہ کرتا ہے مرے کرنے میں کیا برائی ہے – شور باقی بھی کرتے ہیں میں بھی کرتا ہوں ۔سچائی اور نیکی کی تلقیں باقی بھی کرتے ہیں میں بھی کرتا ہوں- ہمیں پہلے آلودہ ماحول کوٹھیک کرنے کی بجائے اپنا آلودہ معاشرہ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں شور کرنے کی بجائے خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں دوسروں سے گناہوں کا بوجھ کرنے سے زیادہ اپنا گناہوں کا بوجھ کم کرنا ہے – ہمیں صرف وہ پیش کرنا ہے جو ہم ہوتے ہیں ۔ نہ کہ وہ جو ہم دکھانا چاہتے ہیں –
ملمع جتنا ہی اچھا ہو اتر ضرور جاتا ہے –آلودہ معاشرے میں خود پرستی اور ملمع کاری زیادہ اور خود انحصاری کم ہوتی ہے ۔ آلودہ معاشروں میں انسان کو دولت کے ترازوں میں تول کر وزن کر لیا جاتا ہے – کردار وہ شے ہے جس کا وزن دولت طے کرتی ہے ۔ دولت کا وزن بات کی اہمیت کو طے کرتا ہے ۔ اور حیرت ہے
کہ آلودہ معاشرے میں ہر فرد خود کو پاک صاف سمجھتا ہے ،اور خود کہتا ہے معاشرہ ٹھیک نہیں حالانکہ کہ کبھی نالی میں اگی ہو کائی بھی پاک صاف ہوئی جب تک وہ قوتِ ایمانی کے زم زم سے نہ دھل جائے۔
آخر میں اتنی التجا ہے کہ ہم سمندر کو میٹھا کرنے کی کوشش کی بجائے اگر قظرہ شیری کردیں تو معاشرے میں ہمارا حق ادا ہو جائے گا –ہو سکتا ہے کہ وہی قظرہ گو ہر ہوجائے – ہم آلودہ معاشرہ ٹھیک نہیں کر سکتے پر چاہیں تو اپنے اندر کی آلودگی صاف کر سکتے ہیں – ہم ایک فرد ٹھیک کر سکتے ہیں – ایک صحیح رکشہ چن سکتے ہیں – یہ ایک رکشے والا اپنا رکشہ ٹھیک کروا کہ یہ مسیج لے کر سکتا ہے ۔ ورنہ یہ مسیج صرف ہنسی کا غبارہ اور
ہمارے آلودہ معاشرے کی بے بسی اور لاچاری پر تماچہ بن جائے گا ۔
فیس بک کمینٹ