کئی دہائیاں پہلے ڈارون نامی سائنس دان نے کہا تھا کہ انسان بندر کی جدید ترین شکل ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک اب ہوا ہے اس لیے ہماری بھولی بھالی عوام کوبندر بنا کر اسے اپنے اشارے پر نچاتے ہیں آپ نے زندگی میں کبھی بندر تماشہ تو ضرور دیکھا ہو گا جس میں مداری اپنی ڈگڈگی بجا کر بندر سے کیسے کیسے کام کرواتا ہے، کبھی تو وہ بندر کو سسرال جانے کی ایکٹینگ کرنے کو کہتا ہے تو کبھی ٹوپی پہن کر ہاتھ میں چھڑی لے کر دفتر جانے کی ایکٹینگ کرواتا ہے اور اسی کھیل تماشے سے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔۔ یہی حال ہماری سیاست کا ہے ، ہمارے مداری سیاست دان بیوقوف عوام کو ہر الیکشن میں بندر کی طرح کبھی سسرال جانے کے خواب تو کبھی بابو بننے کے خواب بانٹتے نظرآتے ہیں، مگر نہ تو کبھی کسی بندر کو آپ نے سسرال جاتے دیکھا ہو گا اور نہ ہی کوئی بند رکوٹ پتلون پہنے آپ کو کسی دفتر جاتا نظر آیا ہو گا۔ ایسے ہی وعدے ہمارے مداری سیاست دان الیکشن کے دوران کرتے ہیں کہ آپ کو روزگار مل جائے گا ، بہترین تعلیم ملے گی نوکری اور انصاف ،ملے گا ، غرض انہیں ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ بیوقوف ان کی ہر بات کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور اپنا قیمتی ووٹ ایسے لوگوں کو دے دیتے ہیں جس کے وہ اہل نہیں ہوتے اور جب وہ سیاسی مداری منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں ، پھر انہیں وہ سب وعدے بھول جاتے ہیں بلکہ وہ اپنے حلقے میں آنا ، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے انہیں پہچانتے تک نہیں۔ ہم عوام آخر کب تک ایسے سیاسی مداریوں کے ہاتھوں بندر کی طرح ناچتے رہیں گے ۔ عوام کو ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کہ جسے وہ منتخب کر رہے ہیں وہ انہیں کس طرح ان کے ساتھ جئے گا ہر دکھ سکھ میں شریک ہو گا ۔ حضور آپ سیاسی مداریوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ ان سے ہر عمل کا جواب مانگیں کہ کل ان کے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے۔
فیس بک کمینٹ