قانون قدرت ہے کہ جو بیجو گے وہی کاٹو گے۔گندم کے خوشے سے گندم کے دانے ہی نکلتے ہیں ،چنے یا جوار باجرے کے نہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مالا جپنے والے سیاست دان اپنے اوصاف اور اطوار سے جو پیغام دے رہے ہیں اس کے نتیجے میں سیاسی مخالفت کم اور ذاتی نفرت و عناد کا اظہار زیادہ ہو رہا ہے۔ جس کا ایک مظاہرہ چند دن پہلے ہم نے نارو وال میں دیکھا جہاں احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا ۔ کل سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی انڈیل کر جمہوری سیاسی کلچر کے منہ پر سیاہی ملی گئی اور آج لاہور کی دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب میں میاں نواز شریف کے ڈائس پر آتے ہی ان کی طرف اچھالا جانے والا جوتا جو میاں نوازشریف کے شانے پر جا لگا نے جوتم پیزار کے کلچر کے بڑھاوے کی خبر دی ہے۔ یہ جوتا دراصل ہمارے سارے سیاسی کلچر کے منہ پر مارا گیا ہے ۔ او ر ایک بار مارا جانے والا یہ جوتا ہمارا مستعد الیکٹرانک میڈیا بھگو بھگو کر باربار پاکستانی قوم کی عدم برداشت کے رویئے کے منہ پر مار رہا ہے۔ جس کی سرا سر ذمہ داری ہمارے آپس میں دن رات دست و گریبان سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔سیاست دانوں کی زبانوں سے ایک دوسرے کے بارے میںنکلنے والے الفاظ سن کر تہذیب تو کیا بد تہذیبی بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔کل سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکے جانے کے واقعہ پر بات کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہہ دیا تھا کہ ایسا واقعہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور آج ہی دو ایسے مزید واقعات ہو گئے۔ پہلے لاہور میں میاں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا اور پھر فیصل آباد میں عمران خان کو جوتامارنے کی کوشش میں ایک شخص جو پکڑا گیا اس نے ٹی وی چینلز کی رپورٹ کے مطابق یہ اعتراف کر لیا کہ اسے اس حرکت پر رانا ثناءاللہ کے داماد نے اکسایا تھا۔ تو کیافیصل آباد میں عمران خان کو جوتا مارنے کی ناکام کوشش میں گرفتار شخص کے بیان سے یہی سمجھا جائے کہ اس جوتم پیزار میں خود سیاست دان ملوث ہیں۔؟ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیاست دانوں کی زہر اگلتی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ سے نفرت اور عداوت کی بھڑکتی آگ کی تپش میںاضافہ ہو رہا ہے۔مریم نواز کا زور خطابت کئی رنگ دکھا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خوشامدی نے میاں نواز شریف کو قائد اعظمؒ کی طرح پاکستان کے عوام کے لیئے جدوجہد کی علامت اور مریم نواز کو محترمہ فاطمہ جناح کی طرح ان کاساتھ دینے کی مثال دے ڈالی اور آج راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے میڈیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے جہاں حسب روایت ادراوں کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں انہوں نے جوش خطابت میں برگزیدہ ہستیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں بھی اسی طرح اپنے باپ کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں اپنے باپ کی مدد کر رہی ہوں۔مریم نواز سے میری گزارش ہے کہ خدا را اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے ان برگزیدہ اور پاکیزہ ہستیوں کے مقدس نام اور حوالے استعمال نہ کریں جن پر ہر کلمہ گو مسلمان کی جان و مال قربان ہونے کو تڑپتی ہے۔ مزید یہ کہ سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی تضحیک نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ ایک حاضر وزیر کو جوتا مارا گیا پھر دوسرے حاضر وزیر کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی اور تین بار کے وزیر اعظم کے سینے پر جوتا مارا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ احسن اقبال۔ خواجہ آصف اور میاں نواز شریف ،تینوں کو اس خفت کا سامنا اپنے اپنے آبائی شہروں میں کرنا پڑا۔البتہ عمران خان جس جوتے کی زد میں آتے آتے بچ گئے وہ واقعہ رانا ثناءاللہ کے شہر فیصل ٓبادمیں وقوع پذیر ہوا۔قصہ مختصر کہ یہ سب کیا دھرا موجودہ سیاستدانوں ہی کا ہے جس نے سیاہی انڈیلے جانے اورجوتے بازی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ سیاست دان ذرا اپنی اداﺅں پر غور کریں اور قوم کو سمجھائیں کہ اس جوتم پیزار کی مذمت کے باوجود اس پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟لیڈر تو قوم کا کردار بناتے ہیں اور ہمارے لیڈر قوم کے اطوار بگاڑ رہے ہیں۔
فیس بک کمینٹ