رضی الدین رضی آسمان شعر و سخن صحافت و ادب کا ایک ایسا ”ملتانی ستارہ“ ہے جسے تعریف و تعارف کی چنداں ضرورت نہیں۔ رضی سے میرا تعلق ملتان میں "نیا دن” اخبار کی سن نوے کی دہائی میں اشاعت کے دور سے ہے۔یہ اخبار معروف صحافی عارف معین بلے کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا تھا اور رضی الدین رضی اس کی بانی ٹیم کے اہم رکن تھے۔عارف معین بلے سے اچھے تعلق کی بنا پر ان کی خواہش کے احترام میں "تلخیاں” کے عنوان سے میں بھی "نیا دن” میں کالم لکھنے لگا۔۔۔اور یہی میرا رضی سےتعارف و تعلق کے آغاز کا سبب بنا۔
رضی الدین رضی اپنے دیگر فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ "ڈرتے ڈرتے” کے عنوان سے باقاعدہ کالم لکھتے تھے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں جب "بات کرنے کو زباں ترستی تھی” رضی الدین رضی”ڈرتے ڈرتے”اپنی تحریروں میں ایسا بہت کچھ کہہ جاتے تھے جس پر گرفت بھی ناممکن ہوتی اور قاری بھی محظوظ و لطف اندوز ہوتا۔۔وقت کے ساتھ ساتھ رضی کا یہ طرز تحریر ان کی شناخت بن گیا ۔۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ رضی الدین رضی ایک بیدار مغز صحافی ایک خوبصورت لب و لہجے کے اعلٰی پائے کے شاعر ہیں۔۔ کالم اور دیگر نثری اصناف کے ذریعے سلیقے اور طریقے سے بات قاری تک پہنچانے کا ہنر رکھنے والے ادیب و کالم نگار ہیں۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کا کون سا ہنر و فن انہیں ممتاز بناتا ہے۔رضی چونکہ خود زندگی کے بیشمار نشیب و فراز سے گزرے ہیں اور وقت کی کڑی دھوپ کی جھلسا دینے والی تپش سے خوب آشنا ہیں اس لئے وہ ایک حساس دل رکھنے والے پر خلوص و ہمدرد انسان ہیں۔۔اور اب تو وہ ایک ایسے ادارے کے مالک پبلشر بھی ہیں جس نے بہت کم عرصے میں کئی خوبصورت کتب شائع کر کے اپنا مقام بنا لیا ہے۔۔
دو دن پہلے رضی خوبصورت ٹائٹل اور خوبصورت اشعار سے مزین و بھرپور اپنے شعری مجموعے ” ستارے مل نہیں سکتے” کے نئے ایڈیشن کی تین کاپیاں میرے اور میرے بیٹے اور بیٹی کو عطا کرنے میرے گھر تشریف لائے۔ان کی اس عزت افزائی اور محبت پر میں ان کا بہت شکرگزار ہوں اور ان کے ادارے کی کامیابی و ترقی کے ساتھ ساتھ رضی الدین رضی اور ان کے اہل و عیال کی صحت وتندرستی کے لئے دعا گو ہوں ۔۔
فیس بک کمینٹ