پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں جمہوری زوال کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں ملک آمریت اور مطلق العنانیت کی طرف گامزن ہؤا ہے۔ انہوں نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے نقطہ نظر سے عدلیہ اور وکلا کے کردار کا ذکر کیا اور اپیل کی کہ وہ آئین کی بنیاد پر عوام دوست نظام کی تشکیل میں کردار ادا کریں۔ ملک میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے نوجوان بلاول بھٹو کی باتیں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
پاکستان کی جمہوری جد و جہد میں عدالتوں کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تاہم ملکی عدلیہ ہمیشہ اس مقصد میں کامیاب نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اہم سیاسی پارٹی کے سربراہ نے عدالتوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے اور کہا کہ چیف جسٹس کا کام یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ یہ فیصلے کرے کہ کہاں ڈیم بننا چاہئے یا کس عمارت کو گرانے کی ضرورت ہے۔ نہ ہی کسی چیف جسٹس کو سموسوں اور چینی کی قیمتوں کا تعین کرنے میں وقت ضائع کرنا چاہئے۔ اس کی بجائے چیف جسٹس کو آئینی معاملات پر فیصلے کرنے چاہئیں۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ’عدلیہ قانونی تصورات پر بحث کا فورم ہے، یہاں یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ کہاں ڈیم بننا چاہئے اور کہاں پر نہیں’۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کوئی جمہوریت قانون کی حکمرانی کے بغیر کام نہیں کرتی۔ اس لئے ملک میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ضروری ہے اور اس حوالے سے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی جدوجہد کسی ایک جج کے لئےنہیں تھی بلکہ جمہوریت کے تصور کے لئے تھی جو اس وقت تک کام نہیں کرسکتی جب تک قانون پر چلنے والی عدلیہ نہ ہو۔ گو اس تحریک سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوسکیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان جمہوریت سے آمریت اور مطلق العنانیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کی بہتری کے لئے اس طریقہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے واضح کیا کہ قانون معاشرے کو جوڑے رکھتا ہے، یہ ریاست اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے جس کے بغیر ’کوئی ترقی، مہذب معاشرہ یا جمہوریت ممکن نہیں‘۔ ملک میں جمہوریت کی صورت حال کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کی گفتگو دو حوالوں سے اہم ہے۔ ایک تو انہوں نے ماضی میں عدلیہ کے ناقص کردار کا حوالہ دیتے ہوئے اصلاح احوال کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دوسرے اس وقت ملک میں اسٹبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کےمابین جمہوری نظام کے حوالے سے جاری رسہ کشی میں عدلیہ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات اگر اس پہلو کو ملک کے مستقبل سے منسلک کرکے دیکھیں اور تمام صورت حال کو آئینی تناظر میں پرکھ کر اہم معاملات پر فیصلے کرسکیں یا سیاسی اصلاح کے نقطہ نظر سے آئینی پیٹیشنز پر بیباکانہ انداز میں جمہوریت کے حق میں احکامات صادر کریں تو غیر منتخب قوتوں اور جمہوری سیاسی جماعتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے سوال پر ایک اہم سنگ میل عبور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عدالتوں نے اگر سیاسی سطح پر جمہوری بحالی کی جدوجہد کو نظر انداز کیا اور ماضی کی طرح وسیع تر قومی مفاد کے کسی غیر واضح تصور کے تناظر میں نئی طرز کے ’نظریہ ضرورت‘ کو نافذ رکھنے پر زور دیا تو جمہوری نظام میں آمرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کمزور ہوگی۔حال ہی میں حکومت نے سائیبر کرائم کے نام پر سوشل میڈیا پر رائے دینے یا ٹاک شو میں گفتگو کرنے کی پاداش میں ایف آئی کے ذریعے کارروائی کی ہے ۔ ایک صحافی اور تبصرہ نگار کے گھر پر ’غیر قانونی‘ قرار دیے گئے چھاپہ کے دوران ایف آئی اے اور پولیس کاکردار بدستور مشکوک ہے۔ محسن بیگ پر دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ کے خلاف اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل سماعت کے لئے مقرر کی جاچکی ہے۔ تاہم اس معاملہ کا یہ پہلو قابل غور اور ملک کی سیاسی قیادت کی جمہوری روایت پر ایمان کے بارے میں سوال ہے کہ ایک مخالفانہ رائے کے حوالے سے سرکاری اداروں کے ذریعے شدت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ متعلقہ صحافی ، اس کے بیٹے یا ملازمین نے اس موقع پر ضرور قانون کی خلاف ورزی کی ہوگی لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ایف آئی اے اور پولیس یا تو کسی پریس کانفرنس کے ذریعے اپنا مؤقف واضح کرتیں اور صحافیوں کے سوالوں کا سامنا کرکے یہ دکھایا جاتا کہ اس معاملہ میں سرکاری افسروں اور اداروں کے ہاتھ صاف ہیں اور وہ حکومت وقت کی وفاداری میں غیر قانونی اقدامات میں ملوث نہیں۔ یا پھر ٹاک شو میں ایک فقرہ کہنے پر گھر پر چھاپہ کی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لیا جاتا۔ سیشن جج کے کی طرف سے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ ایف آئی کا چھاپہ ناجائز تھا اور محسن بیگ کو ہراساں کرنے کے نقطہ نظر سے ایف آئی اے کے اہلکار ان کے گھر گئے تھے۔ ملکی عدالتیں ہی سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو یہ حوصلہ دے سکتی ہیں کہ وہ سیاسی قیادت کے ناجائز احکامات ماننے سے انکار کریں ۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ ہی حکومت وقت کو یہ دوٹوک پیغام دے سکتی ہے کہ اسے جمہوری روایت، آزادی رائے اور شہری حقوق کے خلاف اقدامات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔سیاسی منظر نامہ میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ اب حکومت وقت کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی صورت میں لڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی مباحث میں یہ واضح ہے کہ منتخب پارلیمنٹ کی موجودگی کے باوجود اب بھی معاملہ بعض غیر منتخب اداروں اور افراد کی مرضی و منشا کا محتاج ہے۔ اس حوالے سے سیاسی لیڈروں کی مفاد پرستی اور اصولوں سے گریز کے طریقہ سے انحراف ممکن نہیں ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی اصلاح کا کام محلاتی سازشوں اور غیر منتخب افراد کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ اس عمل میں صورت حال کی نگرانی اور آئینی طریقہ کار پر عمل درآمد کی مکمل ذمہ دار ملکی عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ عدلیہ کو کسی ’سو موٹو‘ اختیار کے تحت ایسے کسی سیاسی عمل میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مختلف معاملات میں عدالتی فیصلے اور ججوں کا رویہ آئین پر سختی سے پابندی پر اصرار کرے تو ملک میں جمہوریت کے حق میں حالات موافق ہوسکتے ہیں۔
انصاف اور قانون کی بنیاد پر قائم جمہوری نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا کہ ’پاکستان کے دونوں اطراف میں انتہاپسند حکومتیں ہیں۔ پاکستان اس مشکل صورت حال میں جمہوریت اور جدیدیت کا روشن مینارہ بھی بن سکتا ہے لیکن غلط روش اس کے اداروں کو تماشہ بنا دے گی‘۔ اس صورت حال میں بھی عدلیہ کا کردار اہم ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ نے ہمیں یہی سبق سکھایا ہے کہ ملک میں جمہوری راستہ کاٹنے اور منتخب نمائیندوں کو بے اختیار بنانے کے طریقوں ہی کی وجہ ملکی مسائل میں اضافہ ہؤا ہے۔ ایک سیاسی جد و جہد کے ذریعے مشترکہ مقاصد کے نقطہ نظر سے حاصل کیا گیا ملک دو لخت ہوگیا لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی ضرورت اور قانون کی بالادستی کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ موجودہ آئینی انتظام میں بھی دو فوجی آمر طویل عرصہ تک حکمران رہ چکے ہیں یا جمہوری حکومتوں کو کنٹرول کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ اس وقت بھی ایک ہائیبرڈ نظام کے تجربہ کا چرچا ہے جس کے تحت ناپسندیدہ سیاسی لیڈروں کو سیاست سے علیحدہ کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ ملکی عدالتوں نے جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو نہ صرف آئینی تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی انہیں ذمہ دار ٹھہرانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ اور عدالتی نظام کے ذریعے ہی اس خصوصی عدالت کو ’ناجائز‘ قرار دینے کا عمل، عدالتوں کی خود مختاری کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ تاثر عام کرتا ہے کہ ملکی عدلیہ اب بھی آئین کی حفاظت کے لئے ہمہ تن گوش نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے اپنے والد آصف زرداری کی طویل حراست کا حوالہ بھی دیا حالانکہ ان پر عائد کیا گیا کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کو سیاسی حوصلہ مندی کی وجہ سے نہ صرف طویل جلاوطنی برداشت کرنا پڑی بلکہ نت نئے مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بالآخر انہیں دسمبر 2007 میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملکی عدالتی نظام ان کے حقیقی قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا معاملہ ابھی تک ملکی اعلیٰ عدلیہ کے دامن پر ایسا بدنما دھبہ ہے جسے صاف کرنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے آج لاہور کے خطاب میں بجا طور سے واضح کیا ہے کہ’ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا ۔ ان کے عدالتی قتل کی سازش لاہور ہائی کورٹ میں تیارکی گئی۔ ہم اب بھی پاکستان کی عدالتوں کی جانب سے اس تاریخی غلطی کی اصلاح کے منتظر ہیں۔ یہ ذاتی درخواست نہیں ۔ سابق صدر آصف زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں انصاف کے لئے ریفرنس بھیجا تو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ داماد تھے بلکہ اس لئے بھیجا تھا کہ یہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی تھی۔ یہ پاکستانی عدلیہ پر سے دھبہ صاف کرنے کا وقت ہے تاکہ دنیا پر ثابت کرسکیں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے جسے ماضی کی ناانصافیوں، تاریخی غلطیوں اور غیر قانونی فیصلوں سے چھٹکارا پانا ہوگا ‘۔اس ایک مقدمے اور اس پر اختیار کی گئی عدالتی خاموشی یا تساہل ملک میں آئینی بالادستی کے بنیادی تصور کو کمزور کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کے ری ٹرائل اور معلوم حقائق و شواہد کی بنیاد پر کیا جانے والا عدالتی فیصلہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہی نہیں کرے گا بلکہ ملکی جمہوری عمل میں ایک اہم حفاظتی چھتری فراہم کرسکتا ہے۔ 44 سال بعد ہی سہی اگر سپریم کورٹ ایک فوجی آمر کی خوشنودی کے لئے کئے گئے ’عدالتی قتل‘ میں حقیقی صورت حال کو دستاویز کردے تو یہ ملک میں ایک نئے روشن عہد کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ