اتوار کو صدر مملکت نے پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ترمیم کا آرڈی ننس جاری کیا ہے۔ قانون میں اس ترمیم سے ایک روز پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس ’اچانک‘ ملتوی کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔ اس اقدام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اس قانونی ترمیم کی ’اشد ضرورت‘ محسوس ہورہی تھی جو پارلیمنٹ میں مسودہ قانون پیش کرکے پوری نہیں کی جاسکتی تھی۔
کوئی جمہوری حکومت جب کسی بھی نقطہ نظر سے اظہار رائے کو دبانے کے لئے قانون سازی کا سہارا لیتی ہے تو وہ اپنی بے بسی اور کمزوری کا اعلان کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو خود دیکھنا چاہئے کہ ایسے ہتھکنڈے اور قوانین کیا ان کی سیاسی مشکلات حل کرسکیں گے یا حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈال سکیں گے۔ میڈیا یا سوشل میڈیا پر اظہار رائے کے بارے میں پوری دنیا میں مباحث ہوتے ہیں اور جمہوری ممالک میں عام طور سے ڈائیلاگ اور تبادلہ خیال کے ذریعے ایسے قواعد متعارف کروانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا تعلق کسی بھی طریقہ سے ایک فرد کی رائے کے اظہار سے ہو۔ اس کے برعکس پاکستان کی موجودہ حکومت روز اول سے میڈیا پر کنٹرول کے بہانے تلاش کررہی ہے۔ ایسی پے در پے کوششوں سے اس وقت پاکستان میں میڈیا کا دائرہ کار محدود اور خبروں کی ترسیل کا انتظام ناقص اور ناقابل اعتبار ہوچکا ہے۔
یہ شکوک و شبہات اس لئے پیدا نہیں ہوئے کہ مخالفین کی طرف سے ’جھوٹی خبریں‘ پھیلائی جاتی ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو ’سرکاری جھوٹ‘ پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اگر کوئی میڈیا ہاؤس کسی حد تک خود مختاری دکھانے کی کوشش کرے تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مظاہرہ حال ہی میں ایک ٹی وی ٹاک شو نشر کرنے پر ایک ٹیلی ویژن چینل بند کرنے کی صورت میں کیا بھی جاچکا ہے۔ حکومت جب اخلاقیات کی بھونڈی توجیہ کی آڑ میں انفرادی اور ادارہ جاتی آزادی رائے کے حق کو محدود یا ختم کرنے کی کوشش کرے گی تو اسے بنیادی انسانی، آئینی اور جمہوری حق پر حملہ ہی تصور کیا جائے گا۔
میڈیا کنٹرول کرنے کے حوالے سے کسی بھی قانون سازی کا ایک بنیادی اور مسلمہ اصول یہ ہونا چاہئے کہ ایسا کوئی اقدام ہیجان کی کیفیت میں نہ کیا جائے۔ کوئی حکومت کسی فوری اور وقتی ضرورت کے تحت قانون سازی کے غیر معمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرڈی ننس کی صورت میں ایسے قانون نافذ نہ کرے جن کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہوں اور جو مسلمہ جمہوری روایات اور اصولوں کے برعکس ہوں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ دنوں کسی مناسب مشاورت کے بغیر دو ایسے قوانین نافذ کئے ہیں۔ ایک کے تحت وزیروں کو انتخابی مہم چلانے کا حق تفویض کیا گیا۔ اس ترمیم کی ضرورت بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے حال ہی میں خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک وزیر کے خلاف کارروائی کی وجہ سے محسوس کی گئی اور فوری سہولت حاصل کرنے کے لئے اس ترمیم کو متعارف کروایا گیا۔ الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) میں ترمیم کی ضرورت بھی دو حالیہ واقعات کے بعد محسوس کی گئی اور صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اسے فوری طور سے نافذ کردیا گیا تاکہ متعلقہ ناپسندیدیدہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے الیکٹرانک کرائم ترمیمی آرڈی ننس کی تفصیل بتاتے ہوئے خود ان دونوں واقعات کو بیان کیا ہے۔ ایک معاملہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے درمیان اختلافات کی خبروں کے بارے میں ہے۔ گزشتہ دنوں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ خاتون اول بنی گالہ سے ناراض ہوکر لاہور آگئی ہیں۔ خانگی مسائل کسی بھی شادی شدہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور یقیناً کسی بھی شخص کو دوسروں کی نجی زندگی کے بارے میں جھوٹی سچی خبریں پھیلانے کا حق نہیں لیکن اس مقصد کے لئے اگر کوئی وزیر اعظم عوامی مینڈیٹ کی صورت میں ملنے والے اختیار کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کہا جائے گا اور اس سے آزادی رائے اور کسی روک ٹوک کے بغیر خبروں کی ترسیل کا اصول بھی متاثر ہوگا۔ اس حوالے سے دوسرا واقعہ مراد سعید کو سپر وزیر قرار دینے پر ایک ٹاک شو میں اٹھائے گئے سوال اور تبصروں کی صورت میں سامنے آیا۔ سوال کیا گیا تھا کہ مراد سعید کیوں کر سب وزیروں میں کارکردگی کے حوالے سے نمایاں رہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مباحثہ کے ایک شریک محسن بیگ نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجوہ وہاں بیان کی گئی ہیں۔ اب محسن بیگ انسداد دہشت گردی کے الزام میں پولیس کی حراست میں ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ روز سماعت میں سوال اٹھایا کہ کسی کتاب کا حوالہ دینے میں کیا فحاشی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اصل فحاشی آئین کی خلاف ورزی یا قانون کا احترام نہ کرنا ہے۔
دو ایسے واقعات کے بعد جن میں سرکاری ترجمانوں کے مطابق وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ایک وزیر کی ’شہرت داغدار‘ ہوئی ہے، میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں قانون سازی ناقابل قبول اور غیر جمہوری طریقہ کار ہے۔ حکومت کو حوصلہ مندی سے صورت حال کا سامنا کرنا چاہئے تھا ۔ اگر وسیع تر عوامی مفاد میں کسی قانون میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی تو اس پر مباحثہ کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ۔ عین ممکن ہے کہ سنجیدہ اور علمی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ اس کے باوجود اگر آزادی اظہار پر کسی قدغن کے حوالے سے کوئی ترمیم کرنا بے حد ضروری تھا تو اس کے لئے مرجہ طریقہ کار اختیار کیا جاتا۔ پہلے تمام متلعقہ فورمز یعنی میڈیا ہاؤسز، صحافی تنظیموں، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور متعلقہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی رائے لی جاتی ۔ ان کی روشنی میں جامع ترمیم تیار کرکے قومی اسمبلی میں اسے ایک بل کی صورت میں پیش کیا جاتا تاکہ اپوزیشن بھی اس پر اپنی رائے دیتی اور متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں میں غور و خوض کے دوران اس قانون کومتوازن ، غیر متنازع اور عوام دوست بنایا جاسکتا۔ ایک جمہوری انتظام میں قانون سازی کے ذریعے اظہار رائے پر قدغن کا طریقہ قابل قبول طرز عمل نہیں ہے۔ نہ ہی کسی قانون سے رائے ظاہر کرنے والوں کی اخلاقی تربیت کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم نے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیکا آرڈی ننس پر ہونے والی نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ قوم کا اخلاق بہتر بنانے کے لئے یہ قانون ضروری تھا۔
وزیر اعظم کا یہ مؤقف سادہ لوحی پر استوار ہے یا وہ اپنی ذات پر تنقید سے اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ کسی بھی قیمت پر مخالفین کو فوری طور سے کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اور اب پیکا میں ترمیم کے ذریعے ایف آئی اے کو وسیع اختیار دینے کے علاوہ عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چھے ماہ کے اندر الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمات کا فیصلہ کریں۔ نئی ترمیم کے بعد ایسے جرم کی سزا تین سے پانچ سال کردی گئی ہے۔ ہائی کورٹس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس شق کے تحت درج کروائی گئی شکایات پر فیصلوں کے لئے خصوصی جج مقرر کریں جو 6 ماہ کے اندر فیصلہ دینے کے پابندہوں۔ اس مدت میں قانون شکنی کرنے والے کسی شخص کو ضمانت کے بغیرحراست میں رکھا جاسکے گا۔ یعنی اگر حکومت کسی شخص کی کسی بھی رائے کو کسی بھی عہدیدار کی شان میں گستاخی سمجھتی ہے تو اسے کوئی جرم ثابت کئے بغیر بھی 6 ماہ کے لئے قید رکھ سکتی ہے۔ اس قسم کی ’سہولت‘ نیب آرڈی ننس اور توہین مذہب کے قوانین کے تحت بھی دی گئی ہے۔ ان دونوں معاملات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے بے قصور لوگوں کو طویل مدت تک قید رکھا جاتا ہے لیکن استغاثہ کبھی اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ ناجائز طور سے قید رہنے والے ایسے کسی شخص کو کوئی ہرجانہ ادا کرنے کا کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے۔
خاص طور سے توہین مذہب کے قوانین کے تحت ایک سو کے لگ بھگ افراد سال ہا سال سے جیلوں میں بند ہیں۔ نہ ان کے مقدمات کو انجام تک پہنچایا جاتا ہے اور نہ ہی ان بدنصیبوں کو رہائی ملتی ہے ۔ حیرت اور دکھ کا مقام ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے بارے میں بعض ’جھوٹی‘ خبریں سامنے آنے پر تو عجلت میں قانون سازی کے ذریعے ناپسندیدہ آوازوں کو فوری طور سے دبانے کا اہتمام کرنا ضروری سمجھا ہے لیکن ان درجنوں لوگوں کی حالت زار کا کوئی احساس نہیں جو بلاسفیمی لاز کے تحت صرف ایک شکایت پر قید کئے گئے ہیں اور اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قومی و عالمی تنظیمیں اس معاملہ پر سوال اٹھاتی رہتی ہیں لیکن ملک کی جمہوری حکومت اور عدالتی نظام ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اخلاقیات کا درس دینے والے عمران خان نہ جانے اس ظلم کو کون سے اخلاقی درس سے جائز قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ یا ان لاکھوں قیدیوں کے بارے میں کسی قانونی اقدام کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی جو ناقص نظام عدل کی وجہ سے طویل عرصہ سے قید ہیں لیکن ان کے خلاف مقدمات کی سماعت ممکن نہیں ہوتی۔ بے گناہ انسانوں کو جیلوں میں بند رکھنے والی حکومت یا نظام بھی کیا کبھی اس ناانصافی کی ذمہ داری قبول کرے گا؟
فی الوقت تو حکومت کو یہ جلدی ہے کہ محسن بیگ کو کسی بھی قیمت پر طویل عرصہ تک جیل میں بند رکھا جاسکے یا بشریٰ بی بی کے بارے میں خبر دینے اور پھیلانے والوں کی گرفت ہوسکے۔ حکوت کو اس حوالے سے برطانیہ کے عدالتی نظام میں سامنے آنے والے دو فیصلوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ایک فیصلہ میں پاکستانی نژاد ایک برطانوی شہری کو ہالینڈ میں مقیم ایک بلاگر کو قتل کرنے کی سازش کا قصور وار قرر دیا گیا ہے۔ اسے اس کام کے لئے بعض پاکستانی عناصر نے ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ دوسرے کیس میں ایک جیوری نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اپنی تقریر میں دہشت گردی اور تشدد پر اکسانے کے الزام سے بری کردیا ہے۔ اسی الزام میں پاکستان میں الطاف حسین پر ہر نوع کی پابندی عائد کی گئی ہے اور ان کی پارٹی میں توڑ پھوڑ کرکے ایم کیو ایم پاکستان کھڑی کی گئی تھی جس کے نمائیندے اس وقت حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ ان دو فیصلوں سے واضح ہوتا ہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں آزادی رائے کی کتنی اہمیت ہے۔ کوئی رائے ظاہر کرنے پر کسی شخص کو نہ تو آسانی سے مجرم قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی صرف مخالفانہ رائے کی بنیاد پر کسی شخص کو ہلاک کرنے کی کوئی کوشش قبول کی جاسکتی ہے۔
مریم نواز نے بجا طور سے متنبہ کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت مخالفین کو دبانے کے لئے جو قانون بنارہی ہے ، وہ خود ان کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف بھلے آئیندہ انتخابات جیتنے کی تیاری کررہی ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی اقتدار کو دوام نہیں ہے۔
(بشکریہ: کروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ