لگ بھگ ایک ماہ تک کسی انتظامی سربراہ کے بغیر کام کرنے والے صوبہ پنجاب کو بالآخر وزیر اعلیٰ نصیب ہوگیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے اس عہدے کا حلف لیا جس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور سے صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر کام شروع کردیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب کو یا تو ایک وزیر اعلیٰ نصیب نہیں تھا یا یک بیک دو وزیر اعلیٰ صوبے کا انتظام سنبھالنے کے لئے بے تاب ہیں۔
حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری سے تھوڑی دیر پہلے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ کو لکھے ایک خط کے ذریعے عثمان بزدار کا ’استعفیٰ‘ قبول کرنے سے انکارکردیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ استعفیٰ نامکمل تھا اور قواعد و ضوابط کے تحت نہیں دیا گیا تھا۔ خط میں عمر سرفراز چیمہ نے اس شبہ کاا ظہار بھی کیا کہ نہ جانے عثمان بزدار سے استعفیٰ دیتے ہوئے سہو ہوگئی یا جان بوجھ کر غلطیاں کی گئیں تاہم وجہ جو بھی ہو یہ استعفیٰ آئینی لحاظ سے درست نہیں ہے ، اس لئے مسترد کیا جاتا ہے۔ گورنر پنجاب کی آئینی عمیق النظری کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف انہیں عہدے سے برطرف کرچکے ہیں۔ روایت کے مطابق صدر مملکت کو اس حکم پر عمل درآمد کے لئے فوری طور سے نوٹی فکیشن جاری کرنا تھا لیکن وہ اس سے انحراف کررہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہر کام ’آئین کے عین مطابق ‘ ہوگا۔ آئینی لحاظ سے صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس کو دو سے چار ہفتے تک مؤخر کرسکتا ہے۔ عمران خان کی وفاداری میں عارف علوی یہی ’استحقاق ‘ استعمال کررہے ہیں۔ ورنہ آئین کی کسے پرواہ ہے۔
اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ عثمان بزدار نے یہ خط ملنے کے بعد اپنا استعفیٰ ’درست طریقے سے ہاتھ سے لکھ کر‘ اپنی ہی جماعت کے وفادار عمر سرفراز چیمہ کو پہنچانے کی بجائے فوری طور سے پنجاب اسمبلی میں ’بحال شدہ‘ کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا اور اپنے وزیروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں جاکر کام شروع کریں۔ اب نہ جانے وزارتوں کا چارج سنبھالنے کے لئے عثمان بزدار کے وزیر کون سا حربہ استعمال کریں گے یا اپنے بحال شدہ وزیر اعلیٰ کی حکم عدولی کا سبب بنیں گے کیوں کہ ان وزارتوں پر تو اب تادم تحریر حمزہ شہباز کا حکم چل رہا تھا۔
عثمان بزدار معصوم اور اپنے کپتان کے وفادار ہیں لیکن لگتا ہے کہ استعفیٰ کے معاملے میں انہیں عمر سرفراز چیمہ کی ہدایت زیادہ پسند آئی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے تو وزارت عظمی کی کرسی بچانے کے لئے معصوم عثمان بزدار کی قربانی دے دی تھی ۔ حکم ملنے پر عثمان بزدار نے مارچ کے آخر میں اپنا استعفیٰ وزیر اعظم عمران خان کو روانہ کردیا تھا۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ کے لئے اپنا نیا امید وار نامزد کیا تھا ۔ پرویز الہی کئی ہفتے تک پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے خلاف رونما ہونے والی اکثریت کو تبدیل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے تھے۔ ان میں منحرف ارکان کو کسی نہ کسی بہانے نااہل قرار دے کر اسمبلی میں کسی صورت اپنے لئے اکثریت پیدا کرنے کی کوشش بھی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ اس کے علاوہ لالچ و تحریص کا ہر وہ ہتھکنڈا اختیار کیا گیا جو پرویز الہیٰ جیسے ہنر مند اور تجربہ کار شخص سے ممکن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ کا امید وار ہونے کے باوجود اسپیکر کے عہدے سے استعفی نہیں دیا تاکہ پنجاب اسمبلی پر ان کا انتظامی اختیار اور آئینی کنٹرول بحال رہے ۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ اگر کسی بھی طرح حمزہ شہباز کی اکثریت کو ختم نہ کیا جاسکا تو قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی طرح کسی آئینی موشگافی سے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ٹالا جاسکے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر جب 16 اپریل کو نیا قائد ایوان چننے کے لئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس منعقد ہؤا تو تحریک انصاف کے ارکان نے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کردیا کیوں کہ انہوں نے گورنر عمر سرفراز چیمہ یا اسپیکر پرویز الہیٰ کی طرح آئین کی اسی تشریح کو درست ماننے سے انکار کردیا تھا جو عمران خان کی سیاسی ضرورت کے عین مطابق ہو۔ وہ ہائی کورٹ کے حکم پر قائد ایوان کے انتخاب کے لئے رائے شماری کروانا چاہتے تھے جب کہ اکثریت سے محروم ہونے کے بعد تحریک انصاف کسی بھی صورت اس معاملہ کو ویسے ہی مؤخر کرنا چاہتی تھی جیسے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو ٹالنے کی سر توڑ کوشش کی گئی تھی۔
اس سارے قضیہ کا یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ عمران خان ہی کے مقرر کردہ سابق گورنر چوہدری محمد سرور نے یکم اپریل کو عثمان بزدار کا استعفیٰ قبول کرلیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ہی روز بعد چوہدری سرور کو برطرف کرکے اپنے ایک وفادار عمر سرفراز چیمہ کو اس عہدے پر فائز کردیا اور صدر علوی نے بھی چند ہی لمحوں میں اس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا ۔ اب دونو ں مل کر آئین کے ایسے شارح بنے ہوئے ہیں جیسا کہ عمران خان قومی سیاست میں اپنے تاحیات اقتدار کے لئے ایک سفارتی چٹھی کو ‘امریکی سازش‘ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ عمر سرفراز چیمہ خود کو سوائے صدر علوی کے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ کا حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ صدر عارف علوی بھی آئین سے ماورا اقدام کرتے ہوئے کسی مطلق العنان آمر کا کردار نبھا رہے ہیں ۔
عمران خان اور ان کے ساتھی کسی صورت یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ ملکی آئین کو نظر انداز کرنے سے اگر ملکی نظام متاثر ہوگا تو خود ان کی سیاسی حیثیت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سابق وزیر اعظم، صدر عارف علوی ، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور گورنر عمر سرفراز چیمہ کی آئین شکنی کے پیش نظر آئین کی شق 6 کے تحت مقدمہ قائم کرنے کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اگر ایسی کوئی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے تو اسے ملک کی بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ آئینی عہدوں پر فائز یا وزیر اعظم اور ڈپٹی اسپیکر جیسے اعلیٰ مناصب پر کام کرنے والے لوگوں پر آئین سے انحراف کا الزام عائد ہو۔ اس مقدمہ میں اگر کسی کو سزا نہ بھی ملے ، پھر بھی ا ن اہم عہدوں پر کام کرنے والوں پر آئین شکنی کا الزام بھی افسوسناک ہوگا۔ البتہ عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے جوش میں ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حد عبور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عمران خان نے آج ہی مئی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ وہ بظاہر اسے پاکستانی قوم کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔ اسی لئے اس احتجاج کے لئے ان کی اپیل صرف تحریک انصاف کے حامیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ چونکہ امریکہ نے ’غدار اور بدعنوان پاکستانی سیاستدانوں‘ کے ذریعے عوام کی آزادی پر حملہ کیا ہے، ان کی منتخب حکومت کو برطرف کروانے میں کردار ادا کیا ہے بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں سازش کی گئی اور براہ راست دھمکی دی گئی جس سے پاکستانی عوام کی توہین ہوئی ہے۔ اس لئے سب پاکستانیوں کو اسلام آباد جمع ہو کر اس ’نامزد حکومت‘ کو نکال باہر کرنے کے لئے عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے۔ وہ یہ دعوے اس امید پر کررہے ہیں کہ عوام کی بڑی تعداد نے اقتدار سے محرومی پر ان سے اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ان کی مدد سے ملک میں ایسا انقلاب برپا کرسکتے ہیں جس کے سامنے طاقت کو کوئی مرکز بھی ٹھہر نہیں سکے گا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان میں کبھی کسی عوامی احتجاج کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ احتجاج کرنا اور اپنا مؤقف قوم کے سامنے پیش کرنا سابق وزیر اعظم کا حق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار ضروری ہے کہ کسی بھی حکومت کے خلاف غیر اخلاقی دباؤ، تشدد، ہراسانی اور الزام تراشی کے طریقوں سے ملک کا سیاسی ماحول خراب ہوگا، جمہوریت کو کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور انتشار کے حالات میں معاشی بحالی کا کام نہیں ہوسکے گا۔ عمران خان اس وقت کسی بھی طریقہ سے ملکی نظام کو ناکارہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ وہ قانون و آئین کے علاوہ ہر اس ادارے کو للکار رہے ہیں جو ان کے خیال میں ان کے اقتدار کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ سیاسی مقاصد کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے انارکی کی صورت پیدا ہوگی۔ عمران خان کا خیال ہے کہ شدت پسندی کے ماحول میں وہ فائدے میں رہیں گے ۔ اسی لئے وہ آئین شکنی سے لے کر لوگوں کو سیاسی مخالفین پر حملوں پر اکسانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے ، وہ ملک میں قانون کی پاسداری اور جمہوریت کے فروغ کے تمام راستے مسدود کررہی ہے۔ اس رویہ سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت عمران خان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ اسے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملکی معاملات پر مطلق العنانیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
کسی بھی طرح دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے جوش میں عمران خان یہ بھول رہے ہیں کہ اپنے نعروں اور رویے سے وہ جن تشدد پسندانہ رجحانات کو فروغ دے رہے ہیں ، وہ خود ان کے لئے بھی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر عمران خان سیاسی کھیل کے بعض بنیادی اصولوں کو پامال کریں گے، ہر قانون ، روایت اور ادارے کو متنازعہ بنائیں گے تو ان کے سیاسی حریف بھی ان کے راستے کو مشکل بنانے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ واضح رہے عمران خان سیاسی طور سے شدید تنہائی کا شکار ہیں اور اقتدار اس وقت ان کے مخالفین کے ہاتھ میں ہے۔ وہ انتہائی ہتھکنڈے ترک نہیں کریں گے تو سرکاری ردعمل شدید اور افسوسناک بھی ہوسکتا ہے۔
عمران خان جب برسر اقتدار تھے تب بھی ان سے گروہ بندی اور انتہا پسندانہ تقسیم پیدا کرنے کی بجائے مفاہمت اور وسیع تر سیاسی تعاون کی فضا پیدا کرنے کی درخواست کی جاتی تھی۔ اب بھی ان سے یہی عرض کی جاسکتی ہے کہ پاپولرازم کے اس طوفان کو صرف اسی صورت سیاسی کامیابی میں تبدیل کیا جاسکے گا اگر وہ وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لئے کام کریں گے۔ سیاست دان تب ہی طاقت ور ہوسکتے ہیں جب وہ ’اسٹبلشمنٹ‘ کو سیاسی مداخلت سے روکنے میں کامیاب ہوں۔ آج عمران خان اسٹبلشمنٹ کے زخم خوردہ ہیں، لیکن برسر اقتدار بیشتر پارٹیاں ماضی میں ایسے ہی گھاؤ برداشت کر چکی ہیں۔
سیاست کو حقیقی معنوں میں عوامی خواہشات کا عکاس بنانے کے لئے انارکی کی بجائے وسیع تر تعاون ، افہام و تفہیم اور احترام کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ عمران خان سمیت نہ کسی سیاست دان کو عزت نصیب ہوگی اور نہ پاکستانی قوم کو ’حقیقی آزادی‘ نصیب ہوسکے گی ۔ اس ڈگر سے ہٹ کر قومی خودداری اور آزادی کی سب باتیں سوائے شعبدہ بازی اور ناقص جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ