سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے 2017 میں فیض آباد دھرنے میں ملوث عناصر کا سراغ لگانے کے لیے ایک سہ رکنی کمیشن مقرر کیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 2019 میں مسلح افواج کے سربراہان کو حکم دیا تھا کہ اس دھرنے میں ملوث تمام عسکری عہدیداروں کو سزا دی جائے۔
اس حکم پر عمل درآمد تو نہیں ہوا البتہ یہ فیصلہ لکھنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کے عہدے سے فارغ کرنے کے لیے ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ اس سے پہلے عدالتی فیصلوں میں اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کی مداخلت کا الزام لگانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا تھا۔ فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد تو نہیں ہوا لیکن اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے متعدد درخواستیں دائر کردی گئیں۔ اپیل کنندگان میں وزارت دفاع، پیمرا، الیکشن کمیشن، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور متعدد دوسرے ادارے اور افراد شامل تھے۔ چار سال تک ان اپیلوں کو التوا میں رکھا گیا البتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ستمبر میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس مقدمہ پر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت شروع کی۔ یکے بعد دیگرے سب درخواست دہندگان نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔
نظر ثانی اور فیصلہ پر عمل درآمد کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود کر رہے ہیں جبکہ اس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔ درخواستیں واپس لینے پر بنچ میں شامل فاضل جج حضرات نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ آخر کس کے کہنے پر یہ درخواستیں دائر کی گئی تھیں کہ اب انہیں واپس لیا جا رہا ہے۔ متعدد درخواست دہندگان کے وکیلوں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ آج عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کے وکیل نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’سچ سب کو پتہ ہے، بولتا کوئی نہیں۔ کوئی ہمت نہیں کرتا‘ ۔ اس پر شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ ’آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ مشکل ہو گیا ہے، ‘ ۔ تاہم چیف جسٹس نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ’آج کل کی بات نہ کریں، ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں‘ ۔
آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے نئے تحقیقاتی کمیشن کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا۔ سہ رکنی کمیشن خیبر پختون خوا کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس اختر علی شاہ کی سربراہی میں کام کرے گا اور اس میں سابق آئی جی طاہر عالم اور وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری خوشحال خان اراکین کے طور پر شامل ہوں گے۔ کمیشن ساٹھ دن میں 2017 کے فیض آباد دھرنے کے پس پردہ کرداروں کا سراغ لگا کر حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔ کمیشن کو تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ غیر قانونی طور سے مالی معاونت کرنے والے عناصر کا سراغ لگانے کا کام بھی سونپا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن اس دھرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کرے گا۔
سابقہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ایسا با اختیار کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا جو کسی کو بھی گواہ کے طور پر بلا سکے اور متعلقہ شخص کمیشن کے سامنے حاضر ہونے کا پابند ہو۔ چیف جسٹس نے آج کی سماعت میں واضح کیا کہ یہ کمیشن آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، سابق آرمی چیف یا سابق چیف جسٹس سمیت کسی کو بھی بلانے کا مجاز ہو گا اور ’جو بھی اس کمیشن میں پیش ہونے میں لیت و لعل سے کام لے تو اسے گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے‘ ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ساڑھے چار سال گزر گئے۔ اب ساٹھ دنوں میں دیکھ لیتے ہیں۔ حاضر سروس کے بارے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے پیمرا کے سابق سربراہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے خدشات کو ابھی محفوظ رکھیں۔ ہو سکتا ہے ساٹھ دنوں میں آپ کی بات سچ نکل آئے لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور ہم پہلے سے ہی شک نہیں کر سکتے۔ سچ تو تفتیشی ہی نکال سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ’کمیشن یا تو ہماری آنکھوں میں دھول جھونکے گا یا پھر تاریخ رقم کر سکتا ہے‘ ۔ امید کرتے ہیں کہ کمیشن خود مختارانہ شفاف تحقیقات کرے گا۔ ابصار عالم نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس مقدمہ میں ایک بیان حلفی جمع کروایا تھا اور پیمرا کے سابق چئیر مین کے طور پر دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایس کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی ہدایت پر میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ فیض آباد دھرنا منظم کرنے کے حوالے سے بھی جنرل فیض حمید پر ہی الزام عائد ہوتا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست متعلقہ فورم پر لے جانے کی ہدایت کے ساتھ مسترد کردی تھی۔ اس میں جنرل فیض حمید سے ان سے سوسائٹی ہتھیانے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس فیصلہ میں البتہ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اس درخواست کو مناسب توجہ ملنی چاہیے تاکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ سامنے آئے اور یہ مذموم سلسلہ بند ہو سکے۔
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی دیے کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے؟ نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے۔ لگتا ہے سپریم کورٹ کو ماضی میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 100 سال بعد بھی یہ سچ نہیں بولا جائے گا کہ نظرثانی درخواستیں کس نے دائر کروائیں۔ ملک میں نفرتیں پھیلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔ کوئی سڑکیں بند کر کے جلاؤ گھیراؤ کر کے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا۔
فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ اس وقت کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے لیے زبردست چیلنج تھا۔ شاید اسی لیے اسے تحریر کرنے والے جج کو عہدے سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی اور تحریک انصاف کی حکومت اور صدر عارف علوی نے اس خواہش کی تکمیل میں کردار ادا کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس مقدمہ میں سامنے آنے والی نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کا اعلان کیا تو یکے بعد دیگرے سب درخواستیں واپس لے گئیں تاہم اب حکم نامہ پر عمل درآمد اور اس دھرنا کے اصل محرکین کا سراغ لگانا باقی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے اصرار پر اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کیا گیا ہے اور اسے دو ماہ کے اندر رپورٹ جمع کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے آج واضح بھی کر دیا کہ کمیشن اس معاملہ میں ملوث سب کرداروں کو بلا کر سوال پوچھنے کا مجاز ہو گا۔
چیف جسٹس کے یہ ریمارکس یوں بھی اہم ہیں کیوں کہ 2017 کے فیض آباد دھرنے اور اس کے بعد رونما ہونے والے سیاسی معاملات میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار براہ راست ملوث رہے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں بے شمار ان کہی کہانیوں کے امین ہیں۔ انہیں اگر حلف کے تحت سچ بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ماضی قریب کی سیاسی تاریخ کے اہم تاریک گوشوں پر روشنی ڈالی جا سکے گی اور واضح ہو سکے گا کہ سیاسی معاملات مینیج کرنے کے لیے کون سا حاکم کہاں سے احکامات جاری کرتا تھا۔
ان میں سب سے پر اسرار کردار جنرل فیض حمید کا ہے۔ ان کے خلاف اب عدالتی، میڈیا اور سرکاری معاملات میں مداخلت کے الزامات کے علاوہ ان کے گواہ بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ البتہ ناقص انتظامی و عدالتی نظام کی وجہ سے ملک میں یہ روایت قائم نہیں ہو سکی کہ ماضی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے لوگوں سے اختیارات کے ناجائز اور غیر آئینی استعمال کے بارے میں استفسار کیا جا سکے۔ بادی النظر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسی بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس منفی رجحان کو تبدیل کیا جا سکے۔ اسی لیے تحقیقاتی کمیشن کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہوں نے کمیشن کے اختیارات کے بارے میں صراحت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ کمیشن آنکھوں میں دھول جھونکنے (سچائیوں کو چھپانے ) کا کام بھی کر سکتا ہے البتہ اگر یہ چاہے تو ایک نئی تاریخ بھی رقم کر سکتا ہے۔ یعنی کمیشن وہ سچ اگلوانے اور بیان کرنے کا حوصلہ کرے جو اب تک چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں بداعتدالی کا مظاہرہ کرنے والوں کا نام لینے سے کم از کم اس وقت ایسے عہدوں پر فائز افسروں کو یہ انتباہ دیا جا سکے گا کہ اگر انہوں نے کسی ناجائز کام میں ہاتھ بٹایا تو مستقبل میں کوئی عدالت ان کا احتساب کرنے کے قابل ہوگی۔
تاہم اس کا کافی انحصار موجودہ عسکری قیادت پر بھی ہو گا۔ سابق آرمی چیف کی سیاست میں حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی کی کہانیاں بہت عام ہیں۔ ان کی حقیقت کا اعتراف جنرل باجوہ نے عہدے پر اپنے آخری دنوں میں یہ کہتے ہوئے خود ہی کر لیا تھا کہ ’فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب ملکی سیاسی معاملات میں غیر جانبدار رہے گی‘ ۔ دیکھا جائے تو یہ اعتراف گناہ ہی تھا اور وہ آئندہ ان سے تائب ہونے کا اقرار کر رہے تھے۔ اصولی طور سے تو ایسے بیان بھی کسی اعلیٰ عہدیدار کا احتساب کرنے کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن فوج نے بھی عدلیہ کی طرح ہمیشہ اپنے داخلی احتساب کا حوالہ دیتے ہوئے دوسرے اداروں حتی کہ عدالتوں کو بھی اپنے افسروں سے باز پرس کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کا معاملہ اس حوالے سے نمایاں مثال ہے۔ ان کے خلاف ایک خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ سے اس عدالت کو ہی ’غیر آئینی‘ قرار دلوا دیا گیا۔ اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کو التوا میں ڈال کر معاملے پر ’مٹی ڈال دی گئی‘ ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اب اس معاملہ پر بھی سماعت کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاک فوج کو اس وقت متنوع چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھتے ہوئے بیرونی دشمنوں سے ملکی مفادات کی حفاظت کرنی ہے اور اندرون خانہ ہونے والی سازشوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ 9 مئی کے واقعات نے فوج کے اندر ’عدم تحفظ‘ کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔ اسی لیے اس روز تخریب کاری میں ملوث عناصر کے ساتھ کسی قسم کی رعایت برتنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ البتہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے پاک فوج کو ایک بار پھر ان ہی غلطیوں کا اعادہ کرنے سے گریز کرنا ہو گا جو ماضی میں اس کے لیے مشکلات کا سبب بنی ہیں۔ ان میں سر فہرست انتخابات میں مرضی کے نتائج سے کسی ایسی حکومت کا قیام ہے جسے سب ادارے قبول کر لیں خواہ اسے عوام میں مقبولیت نہ بھی حاصل ہو۔ اب فوجی قیادت ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس موقع پر کیے جانے والے فیصلے مستقبل قریب میں فوج اور ملکی عوام کے درمیان رشتے کی نوعیت کا تعین کریں گے۔
فیض آباد دھرنا کیس کمیشن کے ساتھ تعاون اور سابق فوجی افسروں کی غیر ضروری پشت پناہی سے گریز کر کے فوجی قیادت یہ واضح کر سکتی ہے کہ وہ سول و سیاسی معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اور نہ ہی ماضی قریب میں ایسے ماورائے آئین اقدامات میں ملوث لوگوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اس ملک کے سول ادارے اور عدالتیں بھی حب الوطن ہیں۔ کوئی عدالت پاک فوج کو زیر بار کرنا یا اس کے خلاف دھول اڑانا نہیں چاہے گی۔ لیکن شہری حقوق اور منتخب حکومتوں کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کی نشاندہی سے ملکی سیاسی، عدالتی و عسکری تاریخ میں ایک نئے مثبت باب کا اضافہ ضرور ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ :کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ