خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بنوں کی امن ریلی میں ہونے والی بدمزگی اور ہلاکت پر مقامی لیڈروں پر مشتمل جرگے کے تعاون سے ’امن‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقوعہ کی عدالتی تحقیقات بھی کروائی جائیں گی۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کامیاب ’مذاکرات‘ کیے ہیں۔ حکومت نے فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے اور اسرائیلی لیڈروں کو دہشت گرد قرار دینے کے مطالبے مان لیے ہیں جس کے بعد ایک ہفتے سے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
گویا ملک کی منتخب قیادت ایسے عناصر سے تعاون کی روایت مضبوط کر رہی ہے جنہیں عوام نے اس مقصد کے لیے ووٹ نہیں دیے۔ نہ جرگے ’عوامی‘ ہوتے ہیں اور نہ تحریک لبیک پاکستان کو عوام نے ملک کی خارجہ پالیسی بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن منتخب حکومتیں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایسے عناصر کے سامنے سرنگوں ہیں۔ یہ دونوں واقعات ایک ایسے وقت میں رونما ہوئے ہیں جب مرکز اور پنجاب میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) ملکی عدلیہ کے خلاف تندخوئی میں مصروف ہے۔ تحریک انصاف پر پابندی لگانے، عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے اور مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ’موثر‘ حکمت عملی بنانے کے لیے بات چیت اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ پھر حکومت خود ہی کسی آئینی بحران کا اندیشہ بھی ظاہر کر رہی ہے، ایسے میں ملک کے تجزیہ نگار اور مبصر فطری طور سے کسی بڑی تباہی کو آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
ملک کے مؤقر انگریزی روزنامے ’ڈان‘ نے آج بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران پر لکھے گئے اداریے میں پاکستان کو بھی خبردار رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے حالات کو دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو ایک انتباہ کے طور پر لینا چاہیے۔ خراب معیشت کے درمیان سیاسی انتقام کا کھیل اور ریاست کا سخت ردعمل، یہ ایک ایسا امتزاج ہے کہ جس سے تباہی آ سکتی ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق آزادی سے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جبکہ ریاستی اداروں کو معاشی بحران میں ہمدردی اور شفافیت سے کام لینے کی ضرورت ہے‘ ۔
’ڈان‘ نے جس پارٹی کے بارے میں حکومت کو احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے تاکہ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا نہ ہوں اور معاملات کو سیاسی زیرکی سے حل کیا جا سکے، اس کے کرتا دھرتا اور بانی چیئرمین عمران خان نے آج اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی کسی قسم کے مذاکرات یا مفاہمت کے امکان کو مسترد کیا۔ انہوں نے ان دونوں پارٹیوں کو فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہوئے موجودہ سیاسی حکمرانوں سے کوئی بات نہیں ہوگی کیوں کہ ملک میں عملی طور سے مارشل لا نافذ ہے اور فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ عمران خان نے بنوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بنوں واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ سب کو پتا ہے بنوں واقعے کے دوران ملٹری نے نہتے لوگوں پر فائرنگ کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک قوم ساتھ نہ ہو‘ ۔ صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ کے پی حکومت کا بیان ہے کہ بنوں میں امن مارچ کے اندر سے شرپسندوں نے فائرنگ کی، جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’سب کو پتا ہے ریلی پر فائرنگ کس نے کی۔ وزیراعلیٰ کے پی جب ملے گا، ان سے کہوں گا کہ بنوں واقعے پر سخت موقف اختیار کریں‘ ۔
جیل میں بیٹھے ہوئے عمران خان جو بزعم خویش اس وقت ملک میں جمہوریت کی واحد امید بنے ہوئے ہیں، ایک ایسے افسوسناک واقعہ پر فوج کو ملوث کرنے اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو خود ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کے زیر انتظام علاقے میں رونما ہوا ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر فوج پر امن ریلی میں فائرنگ کرنے کا الزام لگانے سے عوام میں جو بے چینی پیدا ہو سکتی ہے، عمران خان کو خود بھی اس کا بخوبی احساس ہو گا۔ بنوں کے حالات اس وقت تشویشناک ہیں۔ کوئی بھی سنجیدہ اور محب وطن سیاست دان، ایسی صورت حال میں سنجیدگی سے حالات پر امن رکھنے اور عوام کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرے گا لیکن عمران خان کا دعویٰ ہے کہ بنوں میں ہجوم کی بھگدڑ اور فائرنگ سے جو ہلاکت ہوئی ہے وہ کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ یہ ملٹری کا کام ہے۔ موجودہ حالات میں عوام کو ملکی فوج کے خلاف بھڑکانے کا رویہ درحقیقت حالات کو تصادم کی طرف دھکیلنے اور حکومت کو اشتعال دلانے کی کوشش ہے تاکہ وہ کوئی ایسا عاقبت نا اندیشانہ اقدام کر بیٹھے، عمران خان جس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔
میڈیا سے اسی بات چیت میں عمران خان نے سانحہ 9 مئی کے بارے میں اپنے پرانے موقف کو دہرایا اور اس کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ان کی پارٹی کا اس روز رونما ہونے والے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنی ذمہ داری سے انکار کرنے کے لیے ہی وہ 9 مئی کے واقعات کو فالس فلیگ آپریشن کہتے ہیں۔ یعنی بعض ایسے عناصر نے یہ کام کیا تھا جو تحریک انصاف کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ عمران خان نے کبھی اس بات کو پوشیدہ نہیں رکھا کہ وہ موجودہ فوجی قیادت کو اس ساری صورت حال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اب بنوں کے واقعہ پر کسی ٹھوس ثبوت یا دلائل کے بغیر فوج پر فائرنگ کا الزام لگاتے ہوئے، وہ اسی رویہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو 9 مئی کے بعد اختیار کیا گیا تھا۔
نارویجین میڈیا نے گزشتہ روز ری پبلیکن پارٹی کے اجلاس میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا صریحاً جھوٹ بولنے کے دو درجن کے لگ بھگ معاملات کا ذکر کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ جان بوجھ کر جھوٹ اور غلط معلومات عام کر کے سیاسی اشتعال اور ہیجان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح عوام کو اپنے جال میں پھنسایا جا سکے۔ عمران خان کا طرز عمل بعینہ اسی رویہ کے مطابق ہے۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ پھیلاتے ہیں اور مخالفین کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں کسی عدالت یا غیر جانب دار فورم پر نہ تو ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عمران خان شاید اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ وہ درحقیقت مخالفین پر دباؤ میں اضافہ کر کے اپنے لیے سیاسی راستہ نکالتے ہیں۔ اب وہ چونکہ فوج کو بھی ’مخالف پارٹی‘ سمجھتے ہیں، اس لیے اس کے بارے میں بھی بے سر و پا الزام تراشی کا سلسلہ دراز کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی وجہ سے پارٹی کو سیاسی قوت حاصل ہوئی ہے۔ اگر عمران خان کے حکم پر یہ حکومت بھی ریاست سے ٹکرانے اور فوج پر بے سر و پا الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردے تو واقعی کوئی ایسا سانحہ رونما ہو سکتا ہے جس سے ملکی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف پر پابندی نہ بھی لگائی جائے تو خیبر پختون خوا میں گورنر راج قائم ہو سکتا ہے۔ اس طرح ایک صوبے میں حکومت کی صورت میں تحریک انصاف کو سیاسی طور سے جو قوت اور اثر و رسوخ حاصل ہے، وہ اس سے محروم ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ عوام میں مایوسی کی صورت میں سامنے آئے گا لیکن اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ تحریک انصاف عوام سے ووٹ تو مانگتی ہے لیکن ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سیاسی اقدامات میں ناکام رہتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں امن و امان کی صورت حال حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے پیدا ہو تب بھی اور بدامنی کو اشتعال انگیزی کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں کی صورت میں بھی، عوام کے لیے عمران خان یا تحریک انصاف کی کمٹمنٹ پر سوالیہ نشان لگا یا جائے گا۔
سیاسی پارٹیاں مسائل حل کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے عوام سے ووٹ مانگتی ہے۔ جمہوری عمل کا واحد مقصد یا فائدہ ہی یہ ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں اور حکومتی یا سیاسی فیصلوں میں کردار ادا کریں جنہیں عوام نے ووٹ دیے ہیں۔ یہ مقصد اقتدار حاصل کرنے والی یا اپوزیشن میں بیٹھنے والی پارٹیاں باہمی گفت و شنید، مذاکرات اور مفاہمت سے حاصل کرتی ہیں۔ کوئی بھی ملک ہر تنازعہ یا اختلاف رائے کے بعد نئے ’شفاف‘ انتخابات منعقد کروانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یوں بھی جب ایک نام نہاد مقبول لیڈر صرف ان انتخابات کو شفاف سمجھتا ہو، جن کے نتیجے میں صرف اسے اقتدار مل سکے تو ایسے شفاف انتخابات تو کسی زور زبردستی یا ناجائز ہتھکنڈے کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتے۔ اس کی ایک مثال 2018 کے انتخابات ہیں جب عسکری قیادت نے ملک کے باقی ماندہ لیڈروں کو سیاسی و جمہوری عمل سے الگ کرنے کے لیے عمران خان کو تیار کیا اور پھر ہر ہتھکنڈا استعمال کر کے پہلے الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کروایا گیا۔ اس کے بعد پارلیمانی اکثریت کے لیے چھوٹی پارٹیوں کا ہانک کر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ تحریک انصاف اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں عسکری قیادت کے ڈنڈے ہی کے ذریعے پارلیمنٹ کو ’مینیج‘ کرتی رہی تھی۔ کیا اب فوج سے اقتدار مانگتے ہوئے عمران خان 2018 میں عوامی مینڈیٹ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر عوام سے معافی مانگیں گے؟ کیوں کہ انہیں بخوبی علم تھا کہ انہیں کیوں اور کیسے انتخابات میں کامیابی دلوائی گئی اور وزارت عظمی کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا۔
عمران خان کو سیاسی عمل میں شریک ہونے اور ملکی سیاست میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے متعدد مواقع ملے ہیں لیکن انہوں نے اپنے غیر جمہوری رویے اور سیاسی کم فہمی کی وجہ سے ہر موقع ضائع کیا۔ حال ہی میں مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے فیصلہ دیا اور تحریک انصاف کے سیاسی کردار کو سند فراہم کی۔ آئینی تقاضوں سے ماورا یہ فیصلہ لکھنے والے معزز ججوں کے ذہن میں یہی بات رہی ہوگی کہ ’حقدار‘ کو حق دے کر ملکی سیاسی عمل میں سہولت اور آسانی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ اس فیصلہ سے استفادہ کر کے تحریک انصاف اور عمران خان نے سیاسی کردار ادا کرنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے تصادم اور اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا ہے۔ اسے صرف اپنی حمایت میں فیصلے دینے والے جج ’انصاف پسند‘ دکھائی دیتے ہیں لیکن باقی ججوں اور عدلیہ کے بارے میں مسلسل جارحانہ رویہ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی بجائے اب فوج کو للکار کر ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے تصادم ناگزیر ہو جائے۔ کیوں کہ عمران خان کو لگتا ہے کہ اب کسی تصادم کے نتیجے میں ہی انہیں اقتدار مل سکتا ہے۔ حالانکہ انہیں یہ جاننا چاہیے کہ کسی افسوس ناک سیاسی یا آئینی تصادم کے نتیجے میں سیاست، جمہوریت اور عوامی حقوق سب سے پہلے نشانے پر ہوں گے۔ عمران خان کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر ہیں جو عوام کے ووٹوں سے ہی اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کوئی فوجی جنرل نہیں جو جب چاہے آئین کو تہ و بالا کر کے اقتدار پر اپنا حق فائق قرار دے۔
عمران خان ضرور احتجاج کریں لیکن ان پاکستانی عوام کی بہبود بھی پیش نظر رکھیں جنہوں نے مشکلوں سے نجات کے لیے انہیں مسیحا سمجھا ہے۔ ذاتی حرص و طمع کی جنگ میں عوام کا کاندھا استعمال کرنے کا طریقہ ہمیشہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ بدقسمتی سے اگر حکومت مسلسل غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے سیاسی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو عمران خان کا طرز عمل بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عوام کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کو پہلے اپنا طرز عمل جمہوری اور عوامی بنانا چاہیے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔ ناروے)