گزشتہ ہفتہ کے دوران سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری نے ایک بار پھر حکومت، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے بارے میں تیکھا لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کی تبدیلی اور مڈ ٹرم انتخابات کی بات کی ہے۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ غیر منتخب اداروں کو عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ استحقاق صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے جہاں عوام کے منتخب نمائیندے ہی قانون سازی اور اہم فیصلے کرسکتے ہیں۔ جولائی میں ہونے والے انتخابات سے پہلے آصف زرداری نے نواز شریف سے سیاسی دشمنی نبھانے کے لئے جمہوریت کے موجودہ انتظام کی راہ ہموار کی تھی لیکن یہ ’جمہوری انتظام ‘ زرداری اور پیپلز پارٹی کے بغیر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
منی لانڈرنگ کے معاملہ میں آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے علاوہ تحریک انصاف کے متعدد لیڈر نواز شریف کے بعد آصف زرداری اور ان کے حامیوں کو بھی جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ لیکن عمران خان کی حکومت نے سیاسی لیڈروں کو ان کی بدعنوانی پر سزا دلوانے کا بار بار اعلان کرنے کے باوجود ابھی تک براہ راست کسی سیاسی لیڈر کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔ بلکہ نواز شریف کے علاوہ آصف زرادری اور ان کے قریبی معاونین جن معاملات میں عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں، وہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی دائر کئے جاچکے تھے۔ یا وہ دہائیوں پرانے مقدمات ہیں جن پر ملک کے سست رو اور ناقص عدالتی نظام کو صرف اس وقت تیزی دکھانے کا موقع ملتا ہے جب نظام کی حفاظت کے لئے بعض سیاست دانوں کی زبان بندی کا مقصد پیش نظر ہو۔ یہ ہتھکنڈا نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ انتخاب سے پہلے عدالتوں اور اسٹبلشمنٹ کو للکار کر ماضی میں سبک دوش کئے جانے والوں وزرائے اعظموں کی بے بسی کا حساب مانگنے والے نواز شریف اب خود ایک بےبس اور مجبور کی طرح نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ متعدد مقدمات میں جیل کی سزا ان کا فوری مقدر بھی دکھائی دیتی ہے۔
آصف زرداری کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے پیچیدہ مقدمہ میں ایف آئی اے کے علاوہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی بھی جلد اپنی رپورٹ پیش کرنے والی ہے۔ فی الوقت زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ضمانت پر ہیں لیکن کسی بھی رپورٹ میں اگر اب تک سامنے آنے والے الزامات کی جزوی تصدیق بھی ہوگئی تو ان دونوں کی آزادی کے دن محدود ہو سکتے ہیں۔ آصف زرداری کو جیل کی سزا کاٹنے کے معاملہ میں بہادر اور حوصلہ مند سمجھا جاتا ہے اور وہ خود بھی بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ تاہم ساٹھ برس سے زیادہ عمر اور ایک ایسے حکومتی انتظام میں جہاں بدعنوانی کے بارے میں واضح اور دوٹوک مو¿قف اختیار کرتے ہوئے بلا تخصیص عہدہ و حیثیت سزا دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے، آصف زرداری تمام تر حوصلہ و جرات کے باوجود شاید جیل جانا پسند نہیں کریں گے۔ کرپشن کے الزامات میں ملنے والی سزاو¿ں کو خواہ جتنا بھی سیاسی انتقام قرار دینے کی کوشش کی جائے لیکن ملک میں بدعنوانی اور سیاسی لیڈروں کی جاہ و ہوس کے بارے میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ عام طور سے ان سزاو¿ں کو الزامات کی تصدیق ہی سمجھا جائے گا۔
نواز شریف کی نااہلی اور بعد میں ایون فیلڈ مقدمہ میں ملنے والی سزا کے بارے میں قانونی نکات خواہ کوئی کہانی بیان کرتے ہوں لیکن یہ سوال ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے کہ اگر لندن کے اپارٹمنٹ جائز طریقے سے کمائی ہوئی اور بیرون ملک منتقل کی ہوئی دولت سے حاصل کئے گئے تھے تو شریف خاندان ان کا ’منی ٹریل‘ کیوں نہیں دیتا اور قانونی پیچدگیوں کی بنیاد پر اپنا مقدمہ لڑنے کی کیوں کوشش کررہا ہے۔ ایسے میں یہ عذر بھی قبول نہیں کیا جاتا کہ یہ سارے مقدمات چالیس سال پرانے ہیں اور نواز شریف نے ذاتی طور پر کبھی خاندانی کاروبار میں حصہ نہیں لیا۔ شاید اسی لئے میاں محمد شریف نے اپنا کاروبار اور دولت براہ راست اپنے پوتوں کو منتقل بھی کی تھی۔
لیکن جب بدعنوانی اور ملک کو لوٹ کر کھاجانے کا تصور راسخ کردیا جائے اور کوئی عدالت ملکیت کا ’ثبوت‘ نہ ہونے کے باوجود نواز شریف کو ہی بیرون ملک وسائل کا اصل مالک قرار دے تو اس سے پہنچنے والے سیاسی نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آصف زرداری کو بھی اگر بدعنوانی یا منی لانڈرنگ کے کسی مقدمہ میں سزا ہوتی ہے تو ان کے بارے میں بھی ملک کو لوٹنے والے کا تاثر قوی ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ ان پر پہلے ہی مسٹر ٹین پرسنٹ اور کمیشن کھا کر کام کرنے والے لیڈر کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ ان الزامات کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا لیکن وہ آصف زرداری کے ماتھے کا کلنک بنے رہے ہیں۔
آصف زرداری نے کوشش بھی کی اور انہیں یقین بھی تھا کہ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کو مناسب سیاسی حصہ مل سکے گا۔ انتخابات سے پہلے نواز شریف کو وزارت عظمی سے ہٹانے اور مسلم لیگ (ن) کو بے اثر کرنے اور اقتدار سے دور رکھنے کی جو کوششیں کی جارہی تھیں، ان کی روشنی میں آصف زرداری کی یہ امید کچھ بے بنیاد بھی نہیں تھی۔ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست اور تحریک انصاف کی نامکمل کامیابی کے بعد آصف زرداری کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ نئے سیاسی انتظام میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔ لیکن عمران خان واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے اور پنجاب میں بھی تحریک انصاف نے آزاد اراکین کے تعاون سے حکومت قائم کر کے اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کی ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومتوں کا استحکام اسمبلیوں میں ان کی طاقت کی بجائے ’سب اداروں کا ایک پیج ‘ پر ہونے کا نعرہ رہا ہے۔ اس صورت حال میں آصف زرداری کا سیاسی خواب پورا ہونے کا ہر امکان ختم ہو چکا ہے۔ اس طرح 2008 کے انتخابات کے بعد سیاسی بادشاہ گر اور جوڑ توڑ کا ماہر قرار پانے والا یہ سیاسی نابغہ دراصل اپنی سیاسی زندگی اور پیپلز پارٹی کے بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ اسی لئے زرداری کے ایک سخت بیان کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ سیاست میں آصف زرداری اپنے آخری دن پورے کر رہے ہیں۔
آصف زرداری گزشتہ دور میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف نواز شریف حکومت کی زیادتیوں کی وجہ سے سخت نالاں رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ نبھانے کا جو کردار گزشتہ برس کے دوران اور انتخابات تک ادا کیا ہے، ان میں دوسری وجوہات کے علاوہ نواز شریف سے سیاسی انتقام لینے کا جذبہ بھی کارفرما رہا ہے۔ زرادری مسلم لیگ (ن) کے خلاف بچھائے جانے والے جال کو بننے میں معاونت کرتے رہے لیکن وہ یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے کہ جس اسٹبلشمنٹ کو وہ 2015 میں للکار تے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ’آپ نے تو تین سال نوکری کے بعد چلے جانا ہے لیکن ہم نے یہیں رہنا ہے‘ وہ پیپلز پارٹی اور آصف زرادری کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کرے گی۔ نومبر 2016 میں جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائیرمنٹ کے بعد زرداری پاکستان آنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن سیاست میں بھرپور واپسی کا جو خواب دیکھتے ہوئے وہ وطن لوٹے تھے، وہ ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔
اب آصف زرداری مڈ ٹرم انتخاب کی بات کریں یا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد مضبوط کرکے اسے کمزور کرنے کا منصوبہ بنائیں یا ’غیر منتخب‘ افراد اور اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کریں کہ’کسی کو عوام کی قسمت سے کھیلنے کا حق حاصل نہیں ہے خاص طور سے انہیں جو تین سال کی مقرر مدت کے لئے کسی عہدہ پر فائز ہوتے ہیں‘۔ ان کی باتوں کو مایوسی کے استعاروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ شاید اسی لئے آصف زرداری سیاسست میں سندھ کارڈ استعمال کرنے کا آپشن بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن نئے پاکستان میں استوار کئے جانے والے انتظام میں اب اس کارڈ کو کھیلنے کے امکانات بھی محدود ہو رہے ہیں۔ آصف زرادری ہوں یا نواز شریف جب تک وہ اسی بساط پر کھیلنے کو کوشش کریں گے جو بڑی مہارت سے بچھا کر تحریک انصاف کو اقتدار سونپا گیا ہے، اس وقت تک ان کی کامیابی کا امکان نہیں ہو سکتا۔ عوام بھی ایسے سیاست دانوں کی باتوں کا اعتبار کرنے سے گریز کریں گے جو مسئلہ کی جڑ کو سمجھتے ہوئے بھی اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ بلکہ اسی انتظام میں اپنی جگہ بنانے کی خواہش کو پالتے ہیں۔
ملک میں تحریک انصاف کی حکومت سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس حکومت کو ایک پیج پر رکھنے کے لئے جو انتظام کیا گیا ہے، وہ ملک میں جمہوریت اور اس کے بنیادی عوامل یعنی آزادی رائے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سنگین اندیشہ ہے۔ یہ انتظام آزادیوں کو سلب کرکے عوام میں مایوسی اور بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سیاسی لیڈر جب تک باہمی اختلافات بھول کر اس بے چینی کو سمجھنے اور سیاسی دست درازی کے اس کلچر کے خلاف یک آواز نہیں ہوں گے، کسی لیڈر کی سیاسی چال بازی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
(بشکریہ: ہم سب)