وزیر اعظم عمران خان نے بھلے فوا دچوہدری کو وزارت اطلاعات سے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں ’ترقی‘ دے دی ہو لیکن ہردم میڈیا میں چھائے رہنے کے شوقین چوہدری صاحب نے بہر حال ایک ایسا راستہ نکال لیا ہے کہ وہ پھر سے خبروں میں چھا جائیں۔
فواد چوہدری نے رمضان اور عید کے موقع پر چاند کی رویت کے معاملہ پر نہ صرف چاند دیکھنے کے اصول بلکہ رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین مفتی منیب الرحمان سمیت اس کے ارکان کو تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنا یابلکہ ان کا ’روزگار‘ خطرے میں ڈالنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو سائنسی و فلکیاتی علوم کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ اب چاند دیکھنے کے لئے دور بین کی بجائے ’عقل‘ استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سائنسی علوم و مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئیندہ پانچ ، دس یا پچاس برس تک کے لئے پورے یقین سے طے کر لیا جائے کہ رمضان یا عید کا چاند کس دن دکھائی دے گا تاکہ رمضان یا عید سے پہلے لوگ آخری لمحے تک ایک دوسرے سے یہ نہ پوچھتے پھریں کہ ’بھائی چاند ہوگیا یا نہیں’ یا یہ کہ ’رویت والوں کا اعلان ہؤا یا ابھی چاند دیکھ ہی رہے ہیں‘۔
فواد چوہدری نے کمیٹی قائم کرکے اس کا اعلان بھی کردیا ہے اور مفتی منیب الرحمان سمیت مذہبی علما کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دوربینوں کی پرانی ٹیکنالوجی ترک کرکے جدید طریقہ اختیار کریں تاکہ عام مسلمان اس مشکل سے نجات پاسکیں جس کا سامنا انہیں ہر مقدس مہینے یا تہواروں کے آغاز پر کرنا پڑتا ہے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہ کمیٹی ان کی وزارت نے قائم کی ہے لیکن اسے حتمی منظوری کے لئے کابینہ میں پیش کیا جائے گا ۔ کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد ہی اس پر عمل درآمد ہوسکے گا۔
کابینہ تک معاملہ پہنچتے اس کی شکل بدل بھی سکتی ہے اور کپتان کے تابعدار وزیر سائنسی امور کابینہ میں اسلام کے علمبرداروں کی مزاحمت اور روحانیت کو سپر سائنس قرار دینے والے وزیر اعظم کی خشمگیں نگاہوں کی تاب نہ لا سکے تو شاید وہ بھی مفتی منیب الرحمان کے اس انتباہ پر صاد کہتے نظر آئیں کہ وزیروں کو دین کے معاملہ میں مداخلت سے باز رہنا چاہئے۔
یوں بھی فواد چوہدری کو سائنس کی مدد سے رمضان اور عید کے چاند کا قضیہ نمٹانے کے لئے رویت ہلال کمیٹی اور اس کے پارسا اراکین و چئیر مین کی ناراضگی مول لینے سے پہلے کابینہ میں دین کے شناور اپنے ہی ساتھیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس گروہ کی قیادت وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں مذہبی امور کے نگران نور الحق قادری اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان جیسے جاں باز کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے شادی کی عمر مقرر کرنے کے ایک بل کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں سر دھڑ کی بازی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
علی محمد خان تو اس بل پر اس قدر ناراض ہوئے تھے کہ انہوں نے بل کے محرک اپنی ہی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کو للکارا کہ ’تم تو غیر مسلم ہو۔ تمہیں اس حساس معاملہ پر ایک اسلام مخالف بل پیش کرنے کی جرات کیسے ہوئی‘۔ اب ایسے جیالے وزیروں کے ہوتے فواد چوہدری کی سائنسی تجویز کا جو حشر ہوگا ، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ یوں بھی فواد چوہدری گزشتہ روز اس روح پرور خطاب کو سننے کے لئے موجود تھے جو وزیر اعظم اور ان کے رہنما و قائد عمران خان نے القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں فرمایا تھا۔ اس تقریر میں عمران خان نے واضح کیا تھا کہ نئی یونیورسٹی روحانیت کو سپر سائنس ثابت کرنے کے لئے تحقیق کرے گی تاکہ ’ریاست مدینہ‘ جیسے حالات پیدا کرکے ملک کو ترقی کی منازل پر گامزن کیا جاسکے۔
نہ جانے فواد چوہدری کو وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد رویت کے معاملہ میں ٹانگ اڑانے کی کیا جلدی تھی کہ آج انہوں نے پانچ رکنی کمیٹی بنا کر رویت کا ’قضیہ ‘ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا قصد کیا ہے۔ حالانکہ چند برس کی بات تھی۔ جب القادر یونیورسٹی کے محققین وزیر اعظم عمران خان کی بصیرت کے عین مطابق روحانیت کو سپر سائنس ثابت کرکے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے تمام مسائل کا ایمان کی روشنی میں حل عطا کرنا شروع کرتے تو رویت کا معاملہ از خود طے ہو جاتا۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی عجلت سے تو یہی لگتا ہے کہ انہوں نے یا تو وزیر اعظم کی باتوں کو توجہ سے سنا نہیں یا انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ اس نئی نویلی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق رویت ہلال کے کام کو آسان کردے گی۔
فواد چوہدری نے صرف سائنسدانوں اور ماہرین کی کمیٹی ہی قائم نہیں کی اور اس کے فوائد اور مالی منفعت پر ہی روشنی نہیں ڈالی بلکہ انہوں نے مفتی منیب الرحمان کی عزت کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بھی یہ سوال داغ دیا کہ اگر یہ اتنا ہی بنیادی دینی معاملہ ہے تو رویت ہلال کمیٹی میں شامل ارکان رمضان اور عید پر چاند دیکھنے کے لئے تیس چالیس لاکھ روپے کیوں قومی خزانہ سے وصول کرتے ہیں؟ وہ یہ کام رضاکارانہ طور پر کیوں سرانجام نہیں دیتے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ یا تو آپ ’ننگی آنکھ ‘ سے چاند دیکھیں یا پھر دوربین جیسے فرسودہ آلے سے چاند دیکھنے کا طریقہ ترک کر کے اس سائنسی علم سے فائدہ اٹھائیں جس کی طرف وہ خود بطور وزیر سائنسی امور اشارہ کررہے ہیں۔
اس کا جواب تو مفتی منیب الرحمان بوقت ضرورت اور خواہش انہیں مرحمت کر ہی دیں گے لیکن عام پاکستانی ’سائنسی رویت کمیٹی‘ کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کا انتظار کرنے سے زیادہ اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ وفاقی وزیر نے عقیدت کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش تو کی ہے لیکن کیا وہ اسے زیر بھی کرسکیں گے یا خود ہی دھڑام سے نیچے آ گریں گے؟
جس معاملہ کو فواد چوہدری نے پبلک ریلیشنگ کا ایک نادر اور نیا موقع سمجھ کر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور چاند دیکھنے کے جس سائنسی طریقہ کی طرف اشارہ کیا ہے، نہ تو وہ کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی یہ تحقیق و ٹیکنالوجی اور علم نیا ہے۔ دنیا کے ماہرین گزشتہ کئی دہائیوں سے چاند کی نقل و حرکت اور زمین کے مختلف حصوں سے اس کے دیکھے جانے کے بارے میں سو فیصد درست معلومات فراہم کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں اسی طریقہ کے مطابق رمضان المبارک یا عیدین کا تعین ہوتا ہے۔ حکومت متعلقہ شعبہ سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر سال بھر کا کیلنڈر جاری کرتی ہے اور کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھاتا۔
تاہم پاکستان کا یہ عالم ہے کہ رویت ہلال کمیٹی لاکھ جتن کرکے ’معلومات اور شواہد‘ جمع کرتی ہے پھر مفتی منیب الرحمان متجسس میڈیا اور بے چین قوم کے صبر کا امتحان لیتے ہوئے طویل دینی مکالمے کے بعد اس فیصلہ کے اسرار سے پردہ سرکاتے ہیں لیکن پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے مفتی پوپلزئی اس محنت کو مسترد کرتے ہوئے ایک دن پہلے چاند نظر آنے کی شہادتیں جمع کرچکے ہوتے ہیں۔ فواد چوہدری چاہیں تو اس معاملہ پر تحقیق کروا سکتے ہیں کہ یہ دو مفتی شہادتوں پر متفق کیوں نہیں ہو پاتے۔ اگر انہیں اس سوال کا جواب مل جائے تو شاید نئی رویت کمیٹی قائم کرنے کی نوبت بھی نہ آئے۔
پاکستان تو دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں تعلیم کی شرح بیشتر ملکوں سے کم ہے لیکن جاپان جیسے دور دراز اور سائنسی علم و ٹیکنالوجی سے بہرہ ور معاشرہ میں رہنے والے چند ہزار پاکستانی مسلمانوں نے دو روز قبل ’جاپان رویت ہلال کمیٹی ‘ کے اجلاس میں مفتی منیب الرحمان کے جاپانی متبادل کی تقریر سنی جس میں انہوں نے ملائشیا سے ملنے والے شواہد اور ان کی بنیاد پر چاند نظر آنے کا اعلان کرتے ہوئے حاضرین سے داد اور مبارک باد وصول کی۔ یورپ اور امریکہ میں بھی رمضان اور عیدین کے مواقع پر خاص طور سے پاکستانی مسلمانوں کو اسی کرب سے گزارا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں مسلمانوں کی سیادت و قیادت کے منصب پر فائز لوگ، علم سے استفادہ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہے کوئی جو ان کا بال بھی بیکا کر سکے؟
اس کا فیصلہ فواد چوہدری یا سائنسی کمیٹی نے نہیں بلکہ عام مسلمانوں نے کرنا ہے۔ جب تک وہ اپنے دینی علما کی جہالت اور دسترس سے انکار کا حوصلہ نہیں کرتے، رویت ہلال کی توپ نما دوربینیں ہر سال درشن دیتی رہیں گی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ