گزشتہ روز سعودی عرب نے حوثی قبائل کے دو بیلسٹک میزائل مار گرانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ میزائل مکہ معظمہ کی طرف پھینکے گئے تھے۔ حوثی افواج کے نمائیندہ نے اس دعویٰ کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکومت یمن کے خلاف اپنی ناجائز جنگ کو درست ثابت کرنے کے لئے عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانا چاہتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی حوثی ترجمان نے سعودی عرب کی فوجی و تیل تنصیبات پر حملے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
سعودی دعویٰ اور حوثی تردید کو علاقے میں ایران کے ساتھ امریکہ کے تنازع کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ امریکی حکومت ایران پر امریکی مفادات پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے خلیج فارس میں طیارہ بردار بحری جہاز ابراہم لنکن کے علاوہ متعد بحری بیڑے بھیج چکی ہے۔ اس کے علاوہ بی۔ 52 بمبار طیارے اور میزائل شکن پیٹریاٹ سسٹم کو بھی قطر اور متحدہ عرب امارات میں امریکی فوجی اڈوں پر نصب کیا گیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس امریکی تیاری اور صدر ٹرمپ اور ان کے نمائیندوں کے متنازع بیانات کی وجہ سے امریکی ماہرین کے علاوہ کانگرس کے ارکان بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ کل رات وزیر خارجہ اور قائم مقام وزیر دفاع کی بریفنگ کے بعد کانگرس میں ڈیموکریٹک نمائیندوں نے حکومت کی حکمت عملی کو خطرناک اور غیر واضح قرار دیا ہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر برنی سینڈرز نے ایران کے بارے میں ٹرمپ حکومت کے دعوؤں اور اقدامات کو ان دلائل سے مماثل قرار دیا ہے جو ویت نام اور عراق کی جنگیں شروع کرنے سے پہلے استعمال کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں جھوٹ بتایا گیا تھا کہ عراق کے پاس ہلاکت پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں‘۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ایران کے ساتھ جنگ نہایت خطرناک ہوگی۔ یہ جنگ عراق میں جنگ جوئی کے مقابلے میں بہت زیادہ تباہ کن ہوگی۔ اس کے برعکس ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ ’ حکومت کے نمائیندوں نے ایران کے ارادوں کے بارے میں مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر یہ اندیشہ درست ہوسکتا ہے کہ ایران علاقے میں امریکی مفادات پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا‘۔
ایران کے ساتھ جاری تنازعہ پر وزیر خارجہ مائک پومیو اور قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہن نے گزشتہ روز امریکی کانگرس کو بریفنگ دی تھی۔ اس خفیہ بریفنگ کے بعد امریکی کانگرس میں پارٹی کی بنیاد پر واضح تقسیم دیکھنے میں آئی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائیندوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے نمائیندے اپنی پالیسی واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ کسی قسم کی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹیں پیش نہیں کی گئیں جن کی بنیاد پر امریکی حکومت ایران کے خطرہ کا ڈھول پیٹ رہی ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومیو اور قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہن نے امریکی کانگرس کو ایران کے ساتھ تنازعہ کے حوالے سے خفیہ بریفنگ میں بتایا ہے کہ ایران علاقے میں امریکی فوجیوں پر حملے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن امریکہ نے معلومات ملنے پر علاقے میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرکے اس خطرہ کو روک لیا ہے۔
بعد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پیٹرک شناہن نے امریکی اقدامات کو دفاعی قرار دیا اور گزشتہ چند روز میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ایرانی خطرے کی سنگینی کو واضح کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے نزدیک چار بحری جہازوں پر تخریب کاری، سعودی پائپ لائن پر حملوں اور بغداد کے گرین زون میں ہونے والے میزائل حملہ کا ذکر کیا۔ امریکہ نے ابھی تک 13 مئی کو امارات کے قریب چار بحری جہازوں پر ہونے والی تخریب کاری کا الزام براہ راست ایران پر عائد نہیں کیا ہے۔ لیکن شناہن نے کانگرس میں خفیہ بریفنگ کے بعد ایران کی پراکسی قوتوں پر اس کا الزام لگاتے ہوئے ایران کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔
بغداد کے گرین زون میں ایک میزائل گرنے کے بعد اتوار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا تھا کہ ’ امریکہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اگر جنگ ہوئی تو ایران کا خاتمہ ہوجائے گا‘۔ ایران نے اس دھمکی نما اشتعال انگیز ٹوئٹ کو ’نسل کشی‘ کی دھمکی قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے اس ٹوئٹ کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان مسلح تصادم کی قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی حکومت کے نمائیندوں نے ان قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کے لئے ہی کانگرس کے نمائیندوں کو خفیہ بریفنگ دی ہے لیکن اس اجلاس کے بعد یہی بات سامنے آئی ہے کہ امریکی حکومت کی پالیسی غیر واضح ہے اور امریکی فوج یا تنصیبات پر ایرانی حملوں کی انٹیلی جنس قابل اعتبار نہیں ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کل رات سی این این کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکہ نے چھوٹے سے علاقے میں مہلک فوجی قوت جمع کرلی ہے۔ اس کی وجہ سے کسی وقت بھی کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ’ امریکہ انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہا ہے‘۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو مسترد کیا اور کہا کہ’ ایران کےساتھ بات کرنے کے لئے پہلے ایران کو احترام دینا ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹرمپ حکومت نے 2015 کے جوہری معاہدہ کو یک طرفہ طور سے ختم کرکے خود پر ہر قسم کا اعتبار ختم کر دیا ہے۔ اس کے بعد سے ایران کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایران دھمکیوں کے سامنے سپر انداز نہیں ہوگا‘۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی گزشتہ روز دارالحکومت تہران میں ایک اجلاس میں واضح کیا ہے ’ایران کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ امریکی دھمکیوں یا جنگ مسلط کرنے سے ایرانی قوم کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتا‘۔
اس سے قطع نظر کہ امریکی حکومت ایران پر حملہ کرنا چاہتی ہے یا محض دھمکا کر اس پر دباؤ میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، ایرانی وزیر خارجہ کی اس رائے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ اشتعال انگیز بیانات اور علاقے میں امریکی افواج کی تعیناتی کے بعد کسی حادثاتی تصادم کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ گو کہ ابھی تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق امریکہ یا ایران کسی قسم کا مسلح تصادم نہیں چاہتے۔ دونوں حکومتوں کے نمائندے الزام تراشی کرتے ہوئے بھی یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ جنگ آپشن نہیں ہے۔ تاہم جب امریکی صدر ایک ملک کو مکمل تباہ کرنے کی دھمکیوں والے ٹوئٹ جاری کرے اور اس کی حکومت میں ایسے عناصر موجود ہوں جو ایران کے خلاف جنگی کارروائی کو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری خیال کرتے ہوں تو کسی بھی قسم کے تصادم کے امکان کو پوری طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے بارے میں بھی وہی حکمت عملی اختیار کی ہے جو انہوں نے شمالی کوریا کے بارے میں اپنائی تھی۔ انہوں نے ستمبر2017 میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں شمالی کوریا کو دھمکاتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ وہ ا س ملک کو نیست و نابود کردیں گے۔ تاہم چند ماہ بعد ہی انہوں نے سنگاپور میں شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان سے ملاقات کی اور ان کے تدبر و فراست کے گن گانے لگے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف بھی اسی قسم کا دباؤ بڑھا کر ایرانی قیادت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ آئندہ برس کی صدارتی مہم میں وہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ انہوں نے ایران کے ساتھ بہتر معاہدہ کرکے اس کے ’زہریلے دانت‘ نکال دیے ہیں۔ ٹرمپ کی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ امریکہ کے عسکری، سفارتی اور معاشی اقدامات سے ایران پر اس قدر دباؤ بڑھایا جائے کہ عوام موجودہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ اور امریکہ تہران میں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ٹرمپ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرنے یا کسی قسم کا تصادم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم یہ بات صدر ٹرمپ کی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے قریب ترین حلیف ملکوں سعودی عرب اور اسرائیل کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ جان بولٹن سال ہا سال سے براہ راست ایران پر حملے کی تجویز دیتے رہے ہیں ۔ جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے زبردست حامی ہیں ۔ ان کے خیال میں ایران کی طاقت کو مفلوج کرنے کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ میں ان کی مکمل بالادستی قائم ہو سکتی ہے۔ موجودہ بحران میں امارات کے قریب آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں کا الزام سب سے پہلے سعودی عرب نے ایران پر عائد کیا تھا۔ اس کے بعد حوثی میزائل حملوں کی خبر دیتے ہوئے ایران کے خلاف امریکی مقدمہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی۔ گزشتہ روز حوثی میزائل حملوں کا نشانہ مکہ معظمہ کو قرار دینے کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی عرب ، ایران کے خلاف امریکی کارروائی کے لئے گراؤنڈ ورک میں مصروف ہے۔ اگلے ہفتے کے دوران شاہ سلمان کی طرف سے مکہ معظمہ میں عرب لیڈروں کے طلب کئے جانے والے اجلاس کا ایجنڈا بھی ایران کے خلاف کارروائی ہی ہو گا۔
امریکہ کی طرف سے ایران کو تنہا کرنے کی کوششوں اور سعودی عرب اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو تباہ کرنے کی شدید خواہش کے باوجود ان زمینی حقائق سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ روس اور چین کے مفادات ایران کے ساتھ وابستہ ہیں۔ قطر کے ساتھ لڑائی مول لے کر سعودی عرب نے عربوں کا غیر متنازع لیڈر ہونے کی اپنی پوزیشن کو متنازع بنا لیا ہے۔ قطر کو سعودی عرب کے ساتھ تنازعہ میں ترکی اور ایران کی حمایت حاصل تھی۔ اس لئے ایران کی مشکل گھڑی میں بھی یہ دونوں ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عراق پر امریکی تسلط کے باوجود وہاں ایرانی اثر و رسوخ اور اس کے حامی ملیشیا گروہوں کی قوت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ شام ، یمن اور لبنان میں ایران کا اثر و رسوخ بھی مسلمہ ہے۔ ان حالات میں ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی آسان نہیں ہوسکتی ۔ اس خطرے کو صدر ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ سے سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
ٹرمپ اپنے یورپی اتحادیوں کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے یا ایران کے ساتھ نئے امریکی مذاکرات کے لئے ان کی اعانت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ اب مشرق وسطیٰ میں فوجی موجودگی کے ذریعے ایران کو بات چیت پر مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید ٹرمپ یہ مقصد بھی حاصل نہ کرسکیں البتہ اس سنسنی خیزی میں کسی غلطی کا امکان موجود ہے جو مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ