وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی اور بھارت کے خلاف انتہائی غصیلا انٹرویو دیا ہے ۔ نیویارک ٹائمز کو ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اب وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’بھارت کی طرف سے اس بارے میں کی گئی کوششوں کا مثبت جواب دینے کی بجائے ، اسے طمانیت کے لئے استعمال کیا گیا۔ ہم نے جو کوشش کرنی تھی وہ کرکے دیکھ لی‘۔
عمران خان کی برہمی قابل فہم ہے۔ بھارت نے بہت ڈھٹائی سے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی ہمہ قسم کوششوں کو مسترد کیا ہے۔ اگرچہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں فوج کا سربراہ بننے کے بعد سے بھارت کے ساتھ مفاہمت اور خیر سگالی کے اشارے دینے شروع کئے تھے اور کہا تھا کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کرتار پور راہداری کی تجویز کے علاوہ بھارت کو افغانستان کے لئے بری راستہ فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔ سابقہ حکومت نے بھی نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی۔ تاہم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مسلسل یہ کہا ہے کہ وہ خطے میں امن چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ا ن کی حکومت دو قدم آگے بڑھے گی۔
اس سال کے شروع میں پلوامہ سانحہ کے بعد پاکستان پر الزام تراشی کرنے اور سرحدی فضائی جھڑپ میں ہزیمت اٹھانے کے باوجود نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے ان فضائی جھڑپوں کی یوں تشہیر کی گویا بھارت نے پاکستان کو کسی بڑی جنگ میں شکست دے دی ہو۔ حتی کہ جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان میں گرفتار کئے گئے بھارتی پائلٹ ابھے نندن کی رہائی پر کسی قسم کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے بھی اپنی شاندار کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی عائد ہونے سے پہلے بی جے پی ابھے نندن کو ’فاتح پاکستان‘ کے طور پر پیش کرنے کے لئے اس کی تصویروں والے انتخابی پوسٹر بھی لگاتی رہی تھی۔
پاکستانی حکومت نے اس دوران یہ مفاہمانہ مؤقف اختیا ر کیا کہ بھارتی حکمران پارٹی انتخابات کی گرما گرمی میں سیاسی مقاصد کے لئے تند و تیز بیانات دے رہی ہے۔ عمران خان کا خیال تھا کہ بھارت میں انتخابات کے بعد بی جے پی اور نریندر مودی عقل کے ناخن لیں گے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گا تاکہ دونوں ہمسایہ ممالک باہمی تنازعات حل کرنے کے لئے پیش قدمی کرسکیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں پاک فوج بھی اشتعال اور تصادم کی بجائے مفاہمت اور مذاکرات کی حامی ہے۔ بھارت کے ساتھ مفاہمت کے سوال پر پاکستان کی سیاسی حکومت اور فوج یکساں پر جوش رہے ہیں۔
اسی تناظر میں عمران خان نے بھارتی انتخابات کے دوران بی جے پی کی طرف سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے باوجود اس امید کا اظہا رکیاتھا کہ اگر نریندر مودی انتخابات جیت گئے تو ان کے ساتھ معاملات طے کرنا اور دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن کے لئے پیش رفت آسان ہوگی۔ عمران خان کو اس مؤقف پر تند و تیز تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا لیکن ان کا مؤقف تھا کہ بی جے پی انتہا پسند ہندوؤں کی نمائندگی کرتی ہے اور بھارت میں مقبول سیاسی لہر کی نمائندہ ہے۔ اس کے لئے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنا آسان ہو گا۔ جبکہ کانگرس کی کامیابی کی صورت میں کمزور مخلوط حکومت قائم ہوتی جو پاکستان کے ساتھ معاہدہ کے لئے کسی غیر روایتی اقدام کا حوصلہ نہ کرپاتی۔
نریندر مودی کو مئی میں ہونے والے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی اپنی سابقہ پارلیمانی نمائندگی برقرار رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود مودی نے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے اور علاقے میں تصادم کی کیفیت کو ختم کرنے کی بجائے اس ماہ کے شروع میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا سیاسی اور سفارتی محاذ کھول لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر مسلسل فوج کے پہرے میں ہے اور 20 روز گزرنے کے باوجود وہاں حالات معمول پر نہیں آسکے ۔
پاکستانی وزیر اعظم نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے اسی غیر انسانی اور تکلیف دہ صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ بھارت نئے قانون اور اقدامات کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ عمران خان کا خیال ہے کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک فاشسٹ اور ہندو انتہا پسند حکومت ہے جس کے دور میں مسلمان اقلیتوں کا جینا حرام کردیاگیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر سے موصول ہونے والی اطلاعات محدود اور غیر مصدقہ ضرور ہیں لیکن ان میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ کرفیو میں نرمی کے ساتھ ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور حکومت دوبارہ کرفیو نافذ کردیتی ہے۔ پوری وادی ایک بڑی جیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کشمیری شہریوں سے مواصلت کے ہر طریقہ پر پابندی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی فون سہولتیں بند ہیں ۔ بھارتی حکومت کے ترجمان ان میں نرمی کے دعوے ضرور کرتے ہیں لیکن عملی طور سے ابھی تک کشمیر میں آباد لوگوں کے ساتھ مواصلت بحال نہیں ہوسکی اور وہ دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے سے محروم ہیں۔ اس صورت حال پر سلامتی کونسل کے ارکان نے ایک مشاورتی اجلاس بھی منعقد کیا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 50 برس بعد کشمیر کے معاملہ پر ہونے والی اس مشاورت کو سفارتی بریک تھرو قرار دیا تھا لیکن سلامتی کونسل نے اس بارے میں کوئی بیان جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس طرح بھارت پر کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے کوئی خاص دباؤ موجود نہیں ۔
پاکستانی وزیر خارجہ اور ان کے معاونین اگرچہ اس کے برعکس تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بظاہر بھارت کو دنیا کے کسی بھی ملک کی طرف سے سفارتی دباؤ یا پریشانی کا سامنا نہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ضرور بات کی ہے اور میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اس اشتعال انگیز صورت حال کو ختم کروانے کے لئے اپنی کوششوں اور ’ثالثی‘ کی پیش کش کو بھی دہرایا ہے۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر ٹرمپ ، پاکستان اور بھارت کے درمیان اشتعال انگیزی اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کروانے کے لئے ’ثالثی‘ کی بات کرتے ہیں یا وہ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لئے بھی اپنا رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
ابھی تک سامنے آنے والے بیانات اور اطلاعات کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کشمیر کی صورت حال امریکہ یا ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ البتہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں کیوں کہ اس علاقے میں ہونے والے کسی تصادم سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے۔ ان میں افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا معاملہ سر فہرست ہے۔
نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نصف گھنٹہ طویل بات چیت میں دیگر معاملات کے علاوہ یہ شکوہ کیا ہے کہ عمران خان اور پاکستانی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات کے باعث علاقے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں عمران نے واضح کیا ہے کہ وہ بھارت اور نریندر مودی کے بارے میں سخت لہجے میں بات کرنا ہی اس وقت مسئلہ کا سب سے بہتر حل سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اس انٹرویو میں انہوں نے اقوام عالم کو متنبہ کیا ہے کہ بھارت نے اگر دہشت گردی کے کسی جعلی واقعہ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جارحیت کا بہانہ تلاش کیا تو دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گی۔ پاکستانی وزیر اعظم کا خیال ہے یہ صورت حال پوری دنیا کے لئے تشویش کا سبب ہونی چاہئے۔
ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک بھی صورت حال کو عمران خان کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ کیا یہ اندیشہ محسوس کیا جارہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ممالک ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہوسکتے ہیں۔ اور اس تصادم میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں اگرچہ عام طور سے یہ تشویش موجود ہے کہ برصغیر کی دو ہمسایہ ایٹمی طاقتوں میں شدید اختلافات ہیں اور وہ مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن کیا وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے یہ اشارہ دینے سے خطرے کی گھنٹیاں زیادہ زور سے بجنے لگیں گی کہ برصغیر میں ایٹمی جنگ ہونے والی ہے۔ اب کچھ کیا جائے؟ اور دنیا اس خطرہ کو بھانپ اگر کچھ کرنا بھی چاہتی ہو تو وہ کیا کرسکتی ہے؟
پاکستان کی طرح دنیا کے پاس بھی بھارت جیسے ملک کو کسی خاص سیاسی حل پر آمادہ کرنے کے لئے زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مایوسی، دھمکی اور انتباہ کے علاوہ پاکستانی حکومت کو کشمیر اور بھارت کے ساتھ معاملات کے بارے میں اپنے آپشنز واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کشمیر کو داخلی معاملہ قرار دیتا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کی وجہ دہشت گردی سے اس کا تعلق بتاتا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ کیا حکومت نے ان دو بنیادوں پر عالمی رائے تبدیل کرنے کے لئے ٹھوس ہوم ورک کا آغاز کیا ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)