جمیعت علمائے اسلام کے دھرنے پر تبصروں، حکومتی دھمکیوں، اپوزیشن کی صفوں میں پڑتی ’دراڑوں‘ کے ہنگامے میں دن تیزی سے بیت رہے ہیں لیکن اس سنگین سیاسی مسئلہ سے نمٹنے کے لئے حکومت نے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے۔ اس حکمت عملی سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ عین وقت پر دھرنا مؤخر یا منسوخ کرنے کے بارے میں باندھی جانے والی توقعات غلط ثابت ہوگئیں تو حکومت کیا کرے گی۔
مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا کے حوالہ سے ہر سطح پر کام کررہے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھی متحرک کیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرکے ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اگر اپوزیشن کا اتفاق و اتحاد نہ بھی ہو تو کم از کم یہ ’خوف‘ ضرور ہے کہ اگر مولانا نے احتجاج کے ذریعے سیاسی بازی پلٹ دی اور موجودہ حکومت کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگئے، تو ان کی مخالفت کرنے والوں کی طرح مولانا کا ساتھ نہ دینے والی سیاسی قوتوں کے لئے بھی عوام کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔ اپوزیشن کی اہم سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام اور ملک کے لئے مصائب کا سبب قرار دے رہی ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان نے اسی حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔ ایسے میں اگر اپوزیشن آزادی مارچ کا حصہ بننے سے گریز کرتی ہے تو اس کا سیاسی مؤقف کمزور اور ناقابل اعتبار ثابت ہوجائے گا۔
دھرنا اور احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی شرائط پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مولانا بھی اس مارچ کوحکومت کے خلاف قومی احتجاج کی شکل دینا چاہتے ہیں جس میں یہ ظاہر ہو کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر موجودہ حکومت کو گرانے کی جد و جہد میں شامل ہیں۔ مولانا کی سیاسی جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور سیاسی لین دین میں جمعیت علمائے اسلام نے ہمیشہ اپنی مذہبی شناخت کو ہی نمایاں کیا ہے۔ اسی لئے اندیشہ تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف شروعکیے جانے والے احتجاج کو مذہبی رنگ دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرادری نے سب سے پہلے اس امکان کے خلاف آوازاٹھائی تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بھی اس احتجاج کو مذہبی نعروں سے محفوظ رکھنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے آزادی مارچ کے لئے جو سلوگن یا مطالبے جاریکیے ہیں، ان میں کوئی مذہبی نعرہ شامل نہیں ہے۔ بلکہ یہ مارچ وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ اور نئے انتخابات منعقد کروانے کے نعرے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جمیعت علمائے اسلام کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ 2018 میں ہونے والے انتخابات دھاندلی زدہ تھے اور موجودہ حکومت انتخابات میں ہر پھیر کے علاوہ قومی اسمبلی میں آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کو تحریک انصاف کا ساتھ دینے پر مجبور کرنے کے نتیجہ میں قائم ہوئی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اس دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے ہی میدان میں نکل رہی ہیں۔
ایک مذہبی سیاسی جماعت اس طرح اپنی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج کو خالص سیاسی بنیاد پر شروع کرنے کا تاثر دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اب اس احتجاج سے گریز کرنے کا کوئی عملی جواز نہیں۔ اسے کسی نہ کسی صورت اس احتجاج کاساتھ دینا ہوگا۔ اگر مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں معقول تعداد میں لوگ لے جانے اور ایک بڑا احتجاجی اسٹیج سجانے میں کامیاب ہوگئے تو اس پر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کو حاضری دینا پڑے گی۔
اس دھرنے سے دور رہنے کی خواہش بہر صورت پوری نہیں ہوسکے گی۔ تاہم یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مولانا فضل الرحمان ایک مذہبی لیڈر ہیں اور ان کی جماعت میں مذہبی لوگ ہی شامل ہیں۔ وہ جس تحریک کی قیادت کریں گے اس میں مذہبی نعرے بھی بلند ہوں گے اور اگر اس احتجاج نے قوت پکڑی اور ہجوم میں زیادہ تعداد مذہبی لوگوں کی ہوئی تو اس سیاسی احتجاج کو غیر مذہبی رکھنا شاید مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں بھی نہ رہے۔ اور غالباً وہ اس کی کوشش بھی نہیں کریں گے۔
نواز شریف نے اس احتجاج کی دو ٹوک حمایت کا اعلان کیا ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے کراچی سے شروع ہونے والے احتجاجی جلوس کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کے وعدہ کیا گیا ہے۔ اس طرح اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں براہ راست اس احتجاج کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اس کی پوری حمایت کا تاثر قائم کررہی ہیں۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری اس ماہ کے آخر میں شروع ہونے والے آزادی مارچ سے پہلے جمعہ سے خود ایک ملک گیر احتجاج کا آغاز کرنے والے ہیں۔ اس طرح یک جہتی کا تاثر کمزور پڑتا ہے۔
نواز شریف کے دوٹوک اعلان کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ابھی تک آزادی مارچ کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے بلکہ اس تاخیر کا جواز ان کی علالت سے فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی نیم دلانہ حمایت اور شہباز شریف کے لیت و لعل سے حکومتی حلقوں کو اپوزیشن کی تقسیم کا سیاسی ہتھکنڈا استعمال کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ایک طرف یہ خبریں ہیں کہ جیل میں بند نواز شریف اور آصف زرداری مولانا کے احتجاج کے حامی ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی غیر واضح حکمت عملی سیاسی بے یقینی میں اضافہ کررہی ہے۔
اپوزیشن کے اتحاد و انتشار کی قیاس آرائیوں سے قطع نظر آزادی مارچ کے حوالے سے یہ سوال بھی اہم ہے کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں کوئی بھی تحریک درپردہ قوتوں کی سرپرستی اور امداد کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی۔ حتی کہ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک جو اس وقت کے چیف جسٹس کی آمر کے سامنے ’ڈٹ جانے‘ والی ایک تصویر کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی اور بظاہر عوامی تحریک تھی لیکن بعد میں سامنے آنے والی معلومات سے پتہ چلا کہ اس تحریک کو بھی درحقیقت فوج میں پرویز مشرف مخالف لابی کی حمایت حاصل تھی۔
مولانا فضل الرحمان کو اسٹیبلشمنٹ کا دوست ہونے کی شہرت حاصل ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت پر مولانا فضل الرحمان سمیت تمام اپوزیشن لیڈر ’نامزد‘ ہونے کی پھبتی کستے ہیں۔ یوں مبصرین کا یہ تجسس بلاجواز نہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت ایک پیج والی ہے تو مولانا فضل الرحمان کس پیج کی سیاست کررہے ہیں؟
آزادی مارچ کے حوالے سے موجودہ صورت حال میں جو تصویر بن رہی ہے، اس کے مطابق ایک ایسا مذہبی رہنما ملک کا سب سے طاقت ور سیاسی لیڈر بن کر سامنے آنے والا ہے جو متنازع بیانات اور ریاست کو مذہب کا لبادہ اوڑھانے کی حکمت عملی کی شہرت رکھتا ہے۔ پاکستان اس وقت جن مسائل کا سامنا کررہاہے، ان میں مذہبی شدت پسندی کے رجحانات سے نمٹنا اور ایسے مذہبی عناصر کی روک تھام کرنا شامل ہے جو انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ اس وقت پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس (ایف اے ٹی ایف) ہورہا ہے جس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
عمران خان یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونا پاکستان کی معیشت کے لئے تباہ کن ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت پوری کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جائے۔ وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہرکی قیادت میں پاکستانی وفد پیرس کے اجلاس میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کی سر توڑ کوشش کررہا ہے تاکہ وہ بلیک لسٹ سے محفوظ رہ سکے۔ پاکستان یہ امید تو کررہا ہے کہ اسے بلیک لسٹ میں نہ ڈالا جائے لیکن اسے یہ پورا یقین نہیں ہے کہ اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔
سخت وارننگ کے ساتھ گرے لسٹ میں رکھنے سے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو شدید ضعف پہنچے گا اور اس کی پالیسیاں کڑی نگرانی میں رہیں گی۔ ایسے میں ایک مذہبی جماعت کے سیاسی قوت پکڑنے اور مولانا فضل الرحمان کے سیاسی قد میں اضافہ سے انتہا پسندی کا رجحان ختم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ پیچیدہ اور پریشان کن منظرنامہ ہے۔ ملک کے عوام نے کبھی مذہبی جماعتوں کو سیاسی قوت عطا نہیں کی ہے۔ لیکن اس وقت حکومت کی ناقص کارکردگی اور اپوزیشن کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے ایک مذہبی جماعت ہی قومی سیاست کی سب سے بڑی طاقت بن رہی ہے۔ احتجاج شروع ہونے پر مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام کی بڑی تعداد اس میں شامل ہوسکتی ہے۔ مارچ شروع ہوکر اسلام آباد پہنچ گیا یعنی تیر کمان سے نکل گیا تو حکومت، اپوزیشن یا بادشاہ گروں سمیت کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوگا۔ پھر سڑکوں پر کھڑے لوگ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔
اس صورت حال سے بچنا صرف حکومت کا ہی درد سر نہیں ہے بلکہ قومی مفاد کے نگہبانوں کو بھی اس سے پریشانی لاحق ہونی چاہیے۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)