نواز شریف کی قومی اسمبلی اور وزارت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد ملک کی اپوزیشن منتشر اور ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان نظر آرہی ہے۔ آج وزارت عظمیٰ کے لئے مشترکہ امید وار لانے کے سوال پر اپوزیشن کے عدم اتفاق اور باہمی اختلاف رائے سے یہ صورت حال مزید واضح ہو گئی ہے۔ یوں تو پاکستان تحریک انصاف نے نواز شریف کی نا اہلی اور قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر نامزد کرنے کے فیصلہ کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ اکثریتی پارٹی کے امیدوار کے مقابلہ پر اپوزیشن کو مشترکہ امید وار لانا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کسی سے مشورہ کئے بغیر نواز شریف کے خلاف تحریک میں عمران خان کے قریبی ساتھی اور ہمنوا عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد کو وزارت عظمیٰ کے لئے پاکستان تحریک انصاف کا امید وار نامزد کردیا گیا۔ اسی پر اکتفا نہیں عمران خان نے کل سپریم کورٹ کے فیصلہ کا جشن منانے کے لئے اسلام آباد میں جو جلسہ منعقد کیا ، اس میں دیگر لوگوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کو بدعنوانی کی سزا دلوانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
پارٹی قیادت کے خلاف ان تند و تیز حملوں کے بعد پیپلز پارٹی کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کا راستہ از خود بند ہو جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ اسے حلیف جماعتوں کی اعانت بھی حاصل ہے ۔اس طرح اسے دو سو سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم اکثریتی پارٹی کے امیدوار شاہد خاقان عباسی کے خلاف مشترکہ امیدوار سامنے لاکر اپوزیشن کم از کم یہ تاثر ضرور دے سکتی تھی کہ وہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور نظام کی درستی کی جد و جہد میں ہم آواز ہے ۔ لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اپوزیشن پارٹیوں میں صرف اسی وقت اشتراک و ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے جب انہوں نے تخریب اور توڑ پھوڑ کے کام میں ایک دوسرے سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو۔ تاہم تعمیری کام کرنے یا مثبت سیاسی پیغام دینے کا موقع آئے تو جویتوں میں دال بٹنے لگتی ہے جس کا مظاہرہ نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لئے یکم اگست کو منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے چھ امید واروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے بھی ہوا ہے۔
اس حوالے سے صرف پاکستان تحریک انصاف نے ہی تکبر اور سیاسی کم فہمی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ جماعت اسلامی سے لے کر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان تک نے اپنا اپنا امید وار لاکر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سیاسی اختلاف کے رسمی اظہار کے معاملہ پر بھی متفق ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ملک کے یہ سیاسی عناصر قومی اہمیت اور عوامی مفاد کے ضروری معاملات میں کیوں کر متفق ہو کر فیصلے کر سکتے ہیں تاکہ ملک و قوم کی ترقی کا اہتمام ہو سکے۔ واضح رہے آئین کی جس متنازعہ شق کے تحت نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گزشتہ دور میں پیپلز پارٹی نے اسے آئین سے حذف کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس تجویز کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اب بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ قومی اسمبلی میں ایسی جمہوریت کش شقات کو ختم کرنے اور ملک کے آئین کو سابق آمر ضیا ء الحق کے اثرات سے پاک کرنے کے لئے کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف خود کو ملک کا نیا حکمران سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا لب و لہجہ رعونت بھرا ہے اور وہ تعاون اور اشتراک کی بات کرنے کی بجائے تصادم اور باقی سب سیاسی قوتوں کو روند کر آگے بڑھنے کا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو نا اہل قرار دلوانے کا ’مقصد‘ حاصل کرنے کے باوجود یہ پارٹی ابھی تک ملک میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کامیاب ہونے والی پارٹی یا لوگوں پر دھاندلی کا الزام لگا کر مسلسل سیاسی مقصد حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لئے پارٹی کو سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور احتجاج کا راستہ چھوڑ کر آئیندہ انتخاب میں کامیابی کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سال بھر بعد منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں اسے ایک بار پھر ناکامی اور مایوسی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔
اس وقت ملک میں سیاسی بد کلامی اور ہیجان خیزی کا یہ عالم ہے کہ کل کے جلسہ میں عمران خان کی زبان پر سپریم کورٹ کے ججوں اور جے آئی ٹی کے ارکان کے سوا کسی کے لئے توصیف کا کوئی جملہ نہیں تھا۔ حتی ٰ کہ انہوں نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کو بار بار ’ذلیل آدمی‘ قرار دیا۔ اس کے جواب میں راجہ فاروق حیدر نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے لئے تحریک انصاف کے امیدوار شیخ رشید کو ’ہیجڑا‘ کہا۔ سیاست میں یہ لب و لہجہ اختیار کرنے والے لیڈروں سے ملک کے عوام کون سی بہتری کی امید کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)