دنیا کی آبادی کو صرف کورونا وائرس سے ہی خطرہ لاحق نہیں ہے، متعدد لیڈروں نے اس وبا کو سیاسی مقبولیت کا ہتھکنڈا بنا کر بظاہر عوام دوستی لیکن درحقیقت اپنے لوگوں کو موت کی طرف دھکیلنے کا اہتمام کیا ہے۔ ایسے عاقبت نااندیش لیڈروں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام سر فہرست ہے لیکن برازیل کے صدر بولسونارا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی ان کے مد مقابل ہیں۔
امریکہ میں کورونا سے متاثرین کی تعداد اکیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہونے والی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جولائی کے شروع تک یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ ہوجائے گی۔ صدر ٹرمپ نے نومبر کے صدارتی انتخاب کے پیش نظر معیشت کھولنے کی جلدی میں ڈاکٹروں، ماہرین حتی کہ اپنے ہی مشیروں کی کسی بات پر توجہ نہیں دی اور اصرار کیا کہ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے اور لوگوں کو کاروبار کرنے اور کام پر جانے کی ’آزادی‘ دی جائے جس کا امریکی آئین ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس سیاسی بیان کا اصل مقصد یہ تھا کہ لاک ڈاؤن اور معاشی بدحالی کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کیا جائے تاکہ نومبر کے انتخاب میں یہ نعرہ بلند کیا جاسکے کہ کورونا بحران کے باوجود انہوں نے روزگار کی صورت حال بہتر بنائی۔
اقتدار کے لئے انسانی زندگی کی اہمیت سے انکار کرنے والے لیڈروں میں سر فہرست البتہ برازیل کے صدر بولسونارا کا نام آئے گا جنہوں نے پہلے دن سے کورونا کو معمولی فلو قرار دے کر پابندیاں عائد کرنے اور لوگوں کو حفاظتی اقدامت پر مائل کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے وزیر صحت نے عالمی ادارہ صحت اور طبی ماہرین کے مشورہ کے مطابق اقدامات کی کوشش کی تو انہیں برطرف کرتے ہوئے برازیلین صدر کا کہنا تھا کہ ’موت تو سب کو ایک دن آنی ہے۔ مجھے صرف لوگوں کی صحت کی فکر نہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی دیکھنا ہے‘۔ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ بیس کروڑ آبادی کے برازیل میں اس وقت ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 43 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
عمران خان کا طرز عمل برازیلین صدر بولسو نارا کے طریقہ سے حیرت انگیز طور پر مماثلت رکھتا ہے۔ انہوں نے بھی پہلے دن سے ماہرین کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کیا ہے کہ کورونا سے عوام کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ ’سکون تو قبر میں ہی ملتا ہے اور ہر کسی کو ایک دن مرنا ہے‘۔ اسی سوچ کے تناظر میں انہوں نے پہلے کورونا کو معمولی فلو قرار دیا پھر یہ دعویٰ کیا کہ اس سے نوجوانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بس بوڑھے لوگ متاثر ہوں گے لیکن ان میں سے بھی شاید صرف دو فیصد موت کے منہ میں جائیں گے۔ یہ معلومات فراہم کرتے ہوئے عمران خان کا مؤقف دراصل یہ رہا ہے کہ چند ہزار بوڑھوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو تعطل کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کوورنا وائرس کی روک تھام کے لئے لاک ڈاؤن مخالف لابی کی حوصلہ افزائی کی اور انتہا پسند حلقوں میں اپنے حامیوں کو مظاہرے کرنے اور ڈیموکریٹ گورنروں کے زیر انتظام ریاستوں میں دباؤ بڑھا کر معمولات زندگی بحال کروانے کا اہتمام کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اس مقصد کے لئے پہلے مذہبی لیڈروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا پھر چھوٹے کاروباری لوگوں کو بالواسطہ کاروبار زندگی بحال کرنے کا لالچ دیتے ہوئے لاک ڈاؤن کے خلاف رائے کو ہموار کیا ۔ جب ملک میں وائرس عروج کی طرف بڑھ رہا تھا ، تو پاکستانی حکومت لاک ڈاؤن ختم کرنے اور پابندیاں اٹھانے کا اعلان کررہی تھی۔ پاکستان بھی برازیل کی طرح ایک ایسا ملک ہے جہاں کورونا کو وبا سمجھنے کی بجائے سیاست کرنے کا ہتھکنڈا مانا گیا اور لیڈروں نے یہ طے کیا کہ اس موقع پر اگر بظاہر غیرروائیتی باتیں کی جائیں تو اس سے عوام خوش ہوں گے اور معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔ اس طرح متوسط اور نچلے طبقے میں مقبولیت برقرار رہے گی۔
عمران خان نے پہلے دن سے کورونا کو بمقابلہ غریب کے طور پر پیش کیا ۔ ان کا مقدمہ یہ رہا ہے کہ امیر ملک تو لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں لیکن پاکستان جیسا غریب ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ غریب لوگوں کو اگر کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا تو وہ کورونا آنے سے پہلے بھوک سے مر جائے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے پاکستان میں طبقاتی تقسیم اور غریب آبادیوں کے طرز زندگی کو دلیل کے طور پر استعمال کیا اور عالمی ادارہ صحت کے اس مشورہ کو قطعی اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس وبا کا کوئی علاج یا ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ اسے روکنے کا واحد طریقہ اس کا سرکل توڑنا ہے۔ یہ کام صرف لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم گزشتہ ماہ کے دوران لاک ڈاؤن کی رہی سہی پابندیاں ختم کرتے ہوئے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کے خلاف ہمہ قسم رکاوٹوں کو ہٹادیا گیا۔
بظاہر غریبوں کی ہمدردی میں اختیار کیا جانے والا یہ رویہ سیاسی مقبولیت برقرار رکھنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ بندی میں لوگوں کی ہلاکت، طبی پیچدگیوں اور پریشان حالی کی بجائے یہ حساب کتاب کیا گیا ہے کہ کیا مرنے والوں کی تعداد ، ان ووٹوں سے کم ہوگی یا زیادہ جو کاروبار کرنے ، بازار کھولنے اور آمد و رفت میں سہولت دینے کی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کورونا وائرس سے بوڑھوں کے علاوہ سنگین بیماریوں کا شکار لوگوں کے مرنے کا امکان زیادہ ہے۔ نوجوان وائرس کا شکار ہونے کے باوجود اپنے مدافعتی نظام کی وجہ سے تھوڑی دیر بیمار رہ کر صحتیاب ہوجائیں گے۔ عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی مقبولیت نوجوان ووٹروں میں ہے۔ یہ وہی ووٹر ہے جسے ایک کروڑ روزگار اور پچاس لاکھ مکان دینے کا وعدہ کرتے ہوئے عمران خان برسر اقتدار آئے تھے۔
بوجوہ یہ وعدہ نہ اب پورا ہؤا ہے اور نہ ہی اقتدار کی آئیندہ مدت میں پورا ہونے کا امکان ہے۔ البتہ کورونا وائرس نے عمران خان کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس کا عذر تراش کر اپنے نوجوان ووٹروں کو یہ تسلیم کرنے پر آمادہ کرسکیں کہ تحریک انصاف نے عمران خان کی بصیرت افروز قیادت میں قلیل مدت میں ہی معیشت کو درست سمت گامزن کردیا تھا لیکن یہ کورونا بیچ میں آگیا۔ گزشتہ دو روز سے وفاقی وزیر عوام کو مسلسل اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ نوجوانوں سے کئے ہوئے وعدے اگر پورے نہیں ہوئے تو اس میں یا تو سابقہ حکومتوں کا قصور ہے اور یا اب کورونا وائرس کی وجہ سے ان خوابوں کی تعبیر ممکن نہیں جو عمران خان نے نوجوانوں کی آنکھوں میں جگائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی البتہ یہ بھی ضروری تھا کہ اگر یہ خواب پورے نہیں ہوسکے تو عمران خان کچھ ایسا کرکے دکھائیں جس سے ان کے حامی مطمئن ہوسکیں۔ کورونا وائرس نے انہیں یہ موقع بھی فراہم کردیا۔ لہذا جب دنیا لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا کی روک تھام کررہی تھی ، عین اس وقت عمران خان کاروبار کھول کر ’غریبوں‘ کی مدد کے نام پر دراصل اپنے ووٹر کو مطمئن اور خوش کرنے کی جد و جہد کررہے تھے۔
کسی سیاست دان سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی پالیسی بناتے ہوئے اپنے ووٹر اور حامیوں کے بارے میں غور نہیں کرے گا تاہم وبا کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ جدید عہد میں رونما ہونے والے مقبولیت پسند سیاسی لیڈروں سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ امریکہ اور برازیل کے صدور کی طرح پاکستانی وزیر اعظم نے وبا کو سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ البتہ پاکستانی سیاست کے تناظر میں یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ موجودہ حکومت کے تسلسل کا کریڈٹ فوج کو دیا جاتا ہے۔ یعنی فوجی قیادت کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی عمران خان کی حکومت اپنی تمام تر غلط کاریوں کی وجہ سے قائم ہے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ اس حکمت عملی پر گامزن دکھائی دیتی ہے کہ غلطیوں کی ’اصلاح‘ کے لئے حکومت کو عسکری اداروں سے ’معاونین‘ فراہم کردیے جائیں اور جہاں فیصلوں میں جھول یا کمزوری دکھائی دے، وہاں براہ راست فیصلے کئے جائیں اور حکومت ان کی اونر شپ لے کر انہیں جمہوری جامہ پہنائے۔ عمران خان یہ کام بخوشی کرنے پر راضی ہیں۔
فوجی حلقے اگرچہ عمران خان کی خواہش کے مطابق سیاسی اپوزیشن کو پوری طرح کچلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لیکن وہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی پر اعتبار کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ کورونا لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے شہباز شریف کی لندن سے واپسی کے باوجود نیب کی پیشیاں اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے خلاف توہین آمیز سوشل میڈیا مہم جوئی، اس حکمت عملی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ عمران خان اپریل کے دوران جب لاک ڈاؤن کی مخالفت کا پیغام دے رہے تھے تو اچانک تحریک انصاف کے زیر اختیار صوبوں یعنی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا تھا۔ فوجی دستے لاہور کی سڑکوں پر بھی لاک ڈاؤن کی نگرانی پر مامور کئے گئے تھے۔ ان حالات میں دو سوال بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:
فوج نے کب عمران خان کی اینٹی لاک ڈاؤن پالیسی کو درست تسلیم کرتے ہوئے اپنا رویہ تبدیل کرلیا۔
عمران خان اگر نوجوان آبادی کو خوش رکھنے کے لئے بوڑھی آبادی کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں تو غیر انسانی ہونے کے باوجود اس کی سیاسی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کیا فوج ملک کی متبادل سیاسی قوتوں سے اس قدر ناراض /خوفزدہ ہے کہ وہ بھی عمران خان کےسیاسی طور سے مقبول لیکن انسانوں کے لئے ہلاک خیز فیصلہ کی حمایت پر مجبور ہے۔
یکم جون کو امریکی صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس کے باہر سینٹ جون اپپیسکوپال چرچ میں بائیبل اٹھا کر تصاویر بنوائی تھیں۔ اس موقع پر امریکی جائینٹ چیفس آف اسٹاف کے چئیرمین جنرل مارک ملے بھی صدر کے ہمراہ تھے۔ ملٹری پولیس اور نیشنل گارڈز نے صدر کا راستہ بنانے کے لئے پر امن مظاہرین کو آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے دور دھکیلا تھا۔ دو روز قبل جنرل ملے نے اپنے اس فیصلہ پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے اسے غلط فیصلہ قرار دیااور کہا کہ ’مجھے اس موقع پر وہاں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ باوردی کمیشنڈ افسر کے طور پر میرا یہ اقدام غلط تھا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہؤا ہے کہ فوج ملکی سیاست میں ملوث ہے۔ میں نے اس غلطی سے سبق سیکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب اس سے سبق سیکھیں گے‘۔
کیا جنرل ملے کی معذرت میں پاکستانی جرنیلوں کے لئے بھی کوئی سبق موجود ہے۔ یا پاکستان کے معروضی حالات میں فوج سیاست میں شراکت کو اپنا حق اور فرض سمجھتی ہے۔ تاہم امریکی جنرل کی معذرت میں اہل پاکستان کے لئے یہ سبق ضرور پوشید ہے کہ امریکہ کیوں کر صدر ٹرمپ جیسے عاقبت نااندیش لیڈر کی غلط کاریوں سے جاں بر ہوسکتا ہے اور پاکستان کیوں قومی سیاسی بحران کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ