طویل انتظار اور چہ میگوئیوں کے بعد سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے مشیر اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے گزشتہ روز ایک تفصیلی پریس ریلیز میں اپنے اہل خاندان کے اثاثوں کے ثبوت پیش کردیے۔ شواہد کا جو پہاڑ احمد نورانی نے اپنی رپورٹ میں کھڑا کیا تھا ، اس میں سے نکلنے والے ’سچ کے چوہے‘ سے پتا چلا کہ کل سرمایہ کاری تو 73950 ڈالر کی تھی لیکن بھائیوں کی محنت اور اللہ کی مہربانی سے اٹھارہ برس میں یہ سرمایہ ستر ملین ڈالر تک جا پہنچا۔ جاننا چاہئے کہ اس میں احمد نورانی ، عاصم باجوہ کی کون سے بے ایمانی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
عاصم باجوہ نے اپنی صفائی دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چونکہ احمد نورانی نے اپنی طرف سے بعض حقائق پیش کئے تھے اور کوئی الزام عائد نہیں کیا تھا لیکن عاصم باجوہ نے اس رپورٹ کو اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔ پاکستان کے عام شہریوں کو احمد نورانی اور عاصم باجوہ کی باہمی نوک جھونک سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا مفاد تو حقائق تک رسائی میں ہے۔ اس لئے احمد نورانی کے ’مسترد شدہ ‘ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف عاصم باجوہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور معلومات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اگرچہ عاصم باجوہ نے اٹھنے والے سوالات کا سلسلہ اور سوشل میڈیا کے مہم جوؤں کا منہ بند کرنے کے لئے جیو ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ وہ معاون خصوصی اطلاعات کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاکہ اپنی پوری توجہ سی پیک کے کاموں پر مبذول کرسکیں۔
اس طرح یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا کہ انہوں نے بطور معاون خصوصی اثاثوں کے حلف نامے میں غلط بیانی کی تھی اور اپنی اہلیہ کے کاروباری مفادات کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ تاہم عاصم باجوہ نے چار صفحات پر مشتمل جو تردیدی بیان احمد نورانی کی معلومات کو غلط ثابت کرنے کے لئے جاری کیا تھا، وزیر اعظم استعفیٰ قبول کرنے سے پہلے ہی اس کا پوری عرق ریزی سے مطالعہ کرچکے تھے۔ عاصم باجوہ جب استعفیٰ لے کر عمران خان کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے وصول کرنے یا سرکاری طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اور باجوہ صاحب کو بتایا کہ ’میں آپ کے فراہم کردہ ثبوتوں سے بہت متاثر ہؤا ہوں۔ اس لئے آپ اطمینان سے معاون خصوصی کے طور پر کام جاری رکھیں‘۔ وزیر اعظم کے اس اصرار اور حسن اخلاق کو دیکھ کر عاصم باجوہ ششدر رہ گئے اور اسی ممونیت میں وہ استعفیٰ پر اصرار نہ کرسکے۔
حالانکہ عاصم سلیم باجوہ کا پکا ارادہ تھا کہ ایسی نوکری کو جوتی کی نوک پر رکھا جائے جس کی وجہ سے بلا وجہ معمولی صحافیوں کے ’الزامات‘ پر طوفان اٹھایا جاتا ہے اور الٹے سیدھے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم گزشتہ روز الجزیرہ کو دیے گئے انڑویو میں ویسے بھی احمد نورانی جیسے صحافیوں کی اصلیت بتاچکے ہیں کہ اگر وہ کہیں برطانیہ کے وزیر اعظم ہوتے اور کوئی صحافی ان پر یا ان کے کسی وزیر ، مشیر یا معاون خصوصی پر کوئی بے سر و پا الزام لگاتا تو انہوں نے عدالت میں ایک درخواست دینی تھی اور انہیں کئی کئی ملین ڈالر مل جانے تھے۔ اور صحافیوں کو ’سچ‘ بتانے کی اصل قیمت کا بھی علم ہوجاتا۔ احمد نورانی کی بچت شاید یوں ہوگئی کہ انہوں نے عاصم باجوہ کی اہلیہ ، بیٹوں اور بھائیوں کے اثاثوں کے بارے میں رپورٹ امریکہ میں بیٹھ کر فائل کی ہے۔ عمران خان برطانیہ میں بیس برس رہے ہیں ، وہاں کے قوانین کو جانتے ہیں اور 1996 میں دو برطانوی کرکٹ اسٹارز کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیت بھی چکے ہیں۔ البتہ انہیں شاید امریکی قوانین کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے ورنہ وہ عاصم باجوہ کو تردیدی بیان جاری کرنے کی بجائے امریکی عدالت کو خط لکھنے کا مشورہ دیتے۔
دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ اس معاملہ میں احمد نورانی کی معلومات کو بھلا دیا جائے اور صرف ان تفصیلات پر غور کیا جائے جو جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی تفصیلی وضاحت میں فراہم کی ہیں۔ انہیں یوں بھی اب سند کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم انہیں درست ، قابل اعتبار اور ٹھوس قرار دے رہا ہے جبکہ پاکستانی صحافیوں اور میڈیا کے بارے میں ان کا دوٹوک مؤقف ہے کہ وہ تو ’ بہتان تراشی ‘کرنے والے ہیں۔ اگر وزیر اعظم ان کے خلاف عدالت میں چلا جائے تو اسے صحافت پر حملہ اور ہراساں کرنا ، کہنا شروع کردیتے ہیں۔ ورنہ عمران خان کے نئے پاکستان میں ملکی و غیر ملکی میڈیا یکساں طور سے پورا آزاد ہے۔ بس اتنا ہے کہ الجزیرہ کا صحافی اگر انٹرویو لیتے ہوئے سول عہدوں پر فوجیوں کو تعینات کرنے کے بارے میں سوال پوچھ لے تو عمران خان بھڑک اٹھتے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں بہر حال عوام نے ایک ’آزاد اور شفاف ‘ انتخاب میں منتخب کیا ہے۔ پھر وہ جسے چاہیں مشیر بنائیں یا کسی ادارے کا چئیرمین۔ یہ حق تو انہیں عوام نے دیا ہے۔ الجزیرہ کے صحافی کو سوال پوچھ کر شرارت کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔ بلکہ عمران خان نے آج عاصم باجوہ کا استعفیٰ مسترد کرکے الجزیرہ کے رپورٹر کو ’مکرر ‘ جواب دیا ہے کہ دیکھو میں صرف عہدے ہی نہیں بانٹ سکتا بلکہ الزامات کا بوجھ بھی اپنے سر لے لینے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ شیرنی سے کون پوچھ سکتا ہے کہ وہ بچہ دے گی یا انڈا؟
عاصم سلیم باجوہ نے اپنی وضاحت میں یوں تو تفصیلی اعداد و شمار فراہم کئے ہیں لیکن عام لوگوں کی دلچسپی اس حقیقت میں ہوگی کہ ان کی اہلیہ اور بھائیوں نے 2002 میں صرف 73950 ڈالر کی سرمایہ کاری سے کاروبار شروع کیا۔ بیگم عاصم باجوہ نے اپنے شوہر کی خون پسینے کی کمائی میں سے ہونے والی جمع پونجی سے کل 19492 ڈالر شوہر کے بھائیوں کے ساتھ مل کر کاروبار میں لگائے۔ سرمایہ کاری میں بھائیوں کا حصہ54458 ڈالر تھا۔ یہ سب وہ رقم ہے جس کے دستاویزی ثبوت کسی بھی وقت فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ بس اللہ کا کرنا ایسا ہؤا کہ کاروبار میں نیک نیتی کا پھل ملا اور ایک اسٹور سے شروع ہونے والا کاروبار 70 ملین ڈالر کے فرنچائز اور اثاثوں میں تبدیل ہوگیا۔ عاصم باجوہ نے بتایا کہ البتہ ان میں سے 60 ملین ڈالر بنکوں سے قرض لیا گیا ہے۔ اس پر حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کون سا بنک ستر بہتر ہزار ڈالر کے کاروبار کو کروڑوں میں قرض دے گا کیوں کہ اس کے ثبوت باجوہ صاحب کسی بھی فورم پر پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ احمد نورانی کو تو یہ سوچنا چاہئے کہ اثاثوں کی رپورٹ تیارکرتے ہوئے وہ مالیت کا تخمینہ تو درست طور سے لگا لیتے جنہوں نے باجوہ فیملی کے کاروبار کی مالیت چالیس پچاس ملین ڈالر بتائی تھی۔ اپنی سچائی سے مجبور عاصم باجوہ کو درست اعداد و شمار بتانا پڑے۔
ویسے اب یہ معاملہ عاصم باجوہ یا ان کی بیگم کے بارے میں نہیں ہے۔ احمد نورانی نے شاید پرانے کاغذات پڑھ لئے اور نئی دستاویزات تک ان کی رسائی نہیں ہوئی (حالانکہ ایک بیان میں وہ عاصم باجوہ کی وضاحت کو ماننے سے انکار کررہے ہیں) ۔ بیگم باجوہ نے جو 19492 ڈالر 2002 میں باجوہ برادرز کے ساتھ مل کر کاروبار میں لگائے تھے، وہ انہوں نے اس سال یکم جون کو نکال لئے اور تمام امریکی کمپنیوں میں اپنی حصہ داری ختم کردی۔ اس طرح عاصم باجوہ نے تین ہفتے بعد بطور معاون خصوصی جب اثاثوں کا حلف نامہ جمع کروایا ، اس وقت ان کی یا ان کی بیگم کی کوئی سرمایہ کاری کسی کاروبار میں نہیں تھی۔ اسی لئے ان پر شبہ کرنا اور اثاثوں کے بارے میں شکوک پیدا کرنا حقائق کے برعکس ہے۔ اب ان کے بھائی یا ان کے بیٹے امریکہ میں کاروبار کررہے ہیں تو عاصم باجوہ کیسے اس کے جواب دہ ہوسکتے ہیں۔ وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں جہاں انہیں خطیر تنخواہیں ملتی تھیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے اپنے بیٹوں کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں چھپائیں۔ صاف بتا دیا کہ ان کے تینوں بیٹے اعلیٰ امریکی یونیورسٹیوں سے بزنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ بس اب وہ اپنے چچاؤں کے ساتھ مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ بالغ لوگ جو چاہیں کریں۔ عاصم باجوہ اس کے بارے میں کیسے کچھ جان سکتے ہیں؟ انہوں نے تو یہ تک بتا دیا کہ ان کے بیٹوں نے پاکستان میں جو کمپنیاں بنا رکھی ہیں وہ یا تو غیر فعال ہیں یا خسارے میں چل رہی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کا حوالہ دے کر بلا وجہ عاصم باجوہ کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ البتہ اس حوالے سے وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اگر ان کے بیٹے اور بھائی امریکہ میں رہتے ہیں تو پاکستان میں غیر فعال کمپنیاں بنانے کی کیا حجت ہے؟ یہ سوال شاید بے سر و پا ہوگا کیوں کہ اب تو وزیر اعظم بھی عاصم باجوہ کی سچائی کی گواہی دے چکے ہیں۔ شاید ان کے بیٹوں کو کمپنیاں بنانے ، رجسٹر کروانے اور پھر غیر فعال کرنے یا اس میں نقصان اٹھانے کا شوق ہو۔ وہ کہتے ہیں نا کہ شوق کی تو کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ انہیں کیا پتہ تھا کوئی احمد نورانی اس بال کی کھال بھی اتارے گا۔
ایک سوال البتہ بہت سے ذہنوں میں ضرور کللبلارہا ہے۔ وزیر اعظم کے ضمانت یافتہ عاصم باجوہ چاہیں تو اس کا جواب دیں یا اسے بدستور گول کرجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بیٹوں نے معروف امریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ جبکہ ان کی اہلیہ باجوہ صاحب کی جوڑی ہوئی پائی پائی جمع کرکے صرف 19492 ڈالر سرمایہ کاری کرسکی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کم از کم اتنی رقم تو کسی معمولی امریکی یونیورسٹی میں ایک سیمسٹر کی فیس ہی ہوتی ہے۔ پھر ان کے تین صاحبزادوں کو کیا ان کے چچاؤں نے تعلیم دلوائی تھی، عاصم باجوہ اپنی تنخواہ سے یہ مصارف برداشت کرتے تھے یا کاروبار میں اہلیہ کے حصہ سے یہ رقم ادا ہوتی رہی۔ وضاحت ہوجائے تو پاکستان کے بہت سے متوسط خاندان بھی ویسی ہی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اور عاصم باجوہ صاحب کو مفت میں ان کی دعائیں مل جائیں گی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ