افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا سے قبل طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عبوری حکومت کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں ملک ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔ گزشتہ روز ملتان میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تشدد میں اضافہ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
پاکستان اس صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہوگا لیکن بوجوہ پاکستانی قیادت اس بارے میں زیادہ پریشان دکھائی نہیں دیتی۔ بظاہر وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سمیت سب حکومتی وزرا افغانستان میں امن کی امید ظاہر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ تشدد کی صورت میں افغانستان سے پناہ گزینوں کا ایک سیلاب پاکستان کی طرف آسکتا ہے ۔ لیکن پاکستان پہلے ہی تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اس لئے وہ مزید پناہ گزین قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ بیانات کی حد تک یہ دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ پاک افغان سرحد کے 90 فیصد علاقے میں باڑ لگائی جاچکی ہے ۔ اس لئے اگر افغانستان میں کوئی بحرانی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان سرحد بند کرکے افغانستان سے آمد و رفت کا سلسلہ بند کردے گا۔ اسی قسم کی دلیل افغان لیڈروں کے ان الزامات کے جواب میں بھی دی جاتی ہے کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے یا تشدد میں ملوث عناصر سرحد پار سے آتے ہیں۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ سرحد پر باڑ کا کام مکمل ہوجانے کے بعد آمد و رفت پر مکمل طور سے کنٹرول کرلیا جائے گا اور جنگ جوئی میں ملوث عناصر پاکستان سے افغانستان داخل نہیں ہوسکیں گے۔
تاہم پاکستانی قیادت کی یہ طفل تسلیاں یا تو عوام کو مستقبل قریب میں پیدا ہونے والے شدید بحران سے بے خبر رکھنے کے لئے دی جارہی ہیں یا پھر یہ توقع کی جارہی ہے کہ طالبان امریکی افواج کے نکلنے کے بعد فوجی اور سیاسی طور سے اس حد تک طاقت ور ہوچکے ہوں گے کہ پاکستان کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔ اسلام آباد کا قیاس ہے کہ اس صورت میں کابل میں ایسے عناصر کی حکومت قائم ہوجائے گی جو پاکستان کے احسان مند ہیں ۔ اس لئے ان کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ ہوگا۔ افغان تنازعہ کے اس ممکنہ اور فوری حل کی توقع کرتے ہوئے پاکستان یہ تاثر بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ سب افغان گروہوں کو مساوی سمجھتاہے اور طالبان کے ساتھ اس کے خصوصی مراسم کے بارے میں قیاس آرائیاں مبالغہ آمیزی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چند روز پہلے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے عجلت میں افغانستان سے فوج نکالنے کی ڈیڈ لائن دےکر طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کو کم کردیا ہے۔ اب طالبان خود کو فاتح اور کامیاب سمجھ رہے ہیں۔ ایسے میں وہ پاکستان کی بات کیوں مانیں گے۔
ایک طرف طالبان سے وابستہ توقعات اور دوسری جانب ان سے دوری اور سب افغان گروہوں کے ساتھ مساوی سلوک کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ افغان عوام کو ہی اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان وہاں پر نمائیندہ حکومت کے ساتھ ہی معاملات کرے گا اور اس کا کوئی ’پسندیدہ‘ نہیں ہے۔ پاکستان کی افغان پالیسی کی یہ دو رخی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ طریقہ اس وقت بھی اختیار کیا گیا تھا جب پرویز مشرف کے دور میں ایک طرف پاکستان طالبان کے خلاف امریکہ کا صف اول کا’حلیف‘ بنا ہؤا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی درپردہ طالبان کے ساتھ معاملات بھی استوار تھے۔ اب پوری دنیا اس سچائی کو مانتی ہے کہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی غیر معمولی موجودگی اور طویل عرصہ تک امن قائم کرنے کی کوششوں کے باوجود طالبان پاکستان کی اعانت اور سرپرستی کی وجہ سے مسلسل مضبوط ہوتے رہے ہیں۔ ان کی قیادت کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور سہولتیں دی گئیں اور طویل عرصہ تک شدت پسند عناصر افغانستان میں حملے کرنے کے لئے پاکستانی علاقوں سے روانہ ہوتے رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کی جلدی اور افغان طالبان سے معاملات کرنے کی عجلت میں پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ پاکستان اب مسلسل ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ دوحہ میں امریکہ و طالبان کے درمیان معاہدہ اسی کی کوششوں کی وجہ سے طے ہوپایا تھا۔ یادش بخیر اس معاہدہ کے لئے شروع ہونے والے مذاکرات سے قبل ٹرمپ حکومت ہی پاکستان کو افغانستان میں ہمہ قسم تشدد اور انتہا پسندی کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ پاکستان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد بیانات اس حوالے سے ریکارڈ کا حصہ ہیں تاہم طالبان کے امن مذاکرات پر آمادہ ہونے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا لب و لہجہ تبدیل ہؤا اور وہائٹ ہاؤس کے دروازے بھی پاکستانی وزیر اعظم کے لئے کھول دیے گئے۔ جولائی 2019 میں عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ کو اسی طرح کامیاب سفارت کاری کی مثال قرار دیا تھا جیسے وہ اب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب پاکستان کا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے اور اس کی وجہ امریکی صدر جو بائیڈن کا یک طرفہ طور سے افواج نکالنے کا فیصلہ ہے۔
پاکستانی سفارت کاری اور عسکری حکمت عملی کے سارے انڈے طالبان کی جھولی میں ڈالے گئے ہیں۔ گزشتہ چند برس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور افغانستان رہا ہے۔ امریکہ طالبان معاہدہ کے بعد سے پاکستانی لیڈر اس معاہدہ میں اپنے کردار کو ’فروخت‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن بظاہر انہیں من پسند قیمت وصول نہیں ہوپارہی جس کی وجہ سے لیڈروں کی باتوں میں تکرار کے علاوہ غم و غصہ بھی جھلکنے لگا ہے۔ جیسے وزیر اعظم افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت اور پاکستان کی ’بے بسی‘ کا سبب جو بائیڈن کے ایک فیصلے کو قرار دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا سارا زور بیان اشرف غنی کی حکومت کو نشانہ بنانے پر صرف ہوتا ہے ۔ وہ اس حد تک جاچکے ہیں کہ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کی ذمہ داری کابل حکومت اور امن دشمن عناصر پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے بیان دیتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ اندھے کو بھی دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان جنگ جوئی میں مصروف ہیں اور افغانستان کے مختلف علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کے لئے عسکری جد و جہد کررہے ہیں۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنے والے گروہ کے ساتھ بات چیت میں کیسے کامیابی ہوسکتی ہے۔
پاکستان جس امریکہ طالبان معاہدہ کا کریڈٹ لے کر اپنی سفارتی کامیابی کا ’خراج‘ وصول کرنا چاہتا ہے اس کی کامیابی قابل عمل بین الافغان مذاکرات اور عبوری حکومت کے اتفاق رائے سے مشروط تھی۔ امریکہ طالبان مذاکرات کے دوران پاکستان نے ہی بین الافغان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن اب اس بارے میں ’لاچاری‘ ظاہر کرکے اس عہد سے گریز کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی یاد دہانی کروانے پر صدر اشرف غنی کے خلاف بیان بازی کا محاذ کھولا گیاہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کو ضرور یہ سوچنا چاہئے کہ اس نے افغانستان کے بارے میں کسی نہ طور سے یہ حکمت عملی گزشتہ تین دہائیوں سے اختیار کی ہوئی ہے۔ کسی ایک گروہ کی سرپرستی کے ذریعے وہ افغانستان کی سیاست میں خود کو کامیاب کھلاڑی سمجھتا ہے اور پھر اس کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت بھی ا س کی ساری امیدوں کا محور طالبان ہیں۔ بفرض محال اگر طالبان نے کسی مرحلے پر پاکستان کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا تو پاکستان کے پاس کیا متبادل سفارتی و عسکری حکمت عملی ہے؟ یہی وقت ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے متبادل منصوبہ کی تفصیلات سامنے لائے تاکہ طالبان کو بھی یہ احساس ہوکہ اگر وہ اپنی سیاسی و عسکری قوت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں بدستور پاکستان جیسے ہمسایہ ملک کی حمایت درکار ہوگی۔ اس کے برعکس طالبان کو اگر یہ تاثر دیا جائے گا کہ وہی پاکستان کی امیدوں کا مرکز ہیں تو ان تعلقات میں کسی دراڑ کی بھاری قیمت بھی پاکستان کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔
سب سے پہلے افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد یا طالبان کے عروج کی صورت میں پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ ہوگا۔ باڑ بنانے اور سرحدیں بند کرنے کی صلاحیت کے باوجود پاکستان مجبور اور جان بچانے کے خواہاں پناہ گزینوں کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ یہاں یہ سمجھنا بھی اہم ہوگا کہ اس بار پناہ گزینوں کے مالی بوجھ میں ہاتھ بٹانے کے لئے عالمی طاقتیں اور ادارے ماضی جیسی تندہی سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ یہ صورت حال ایک نئی ’دکانداری‘ شروع کرنے کا سبب نہیں بن سکے گی بلکہ افغان پناہ گزینوں کا مالی بوجھ زیادہ تر پاکستانی معیشت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
تاہم پاکستانی لیڈر صورت حال کی سنگینی سے اس حد تک بے خبر ہیں کہ ایک ٹی وی انٹرویو میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے براہ راست امریکی صدر جو بائیڈن کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم اڈے دینے پر تیا رہوجائیں تو جوبائیڈن کا آج ہی فون آجائے گا۔ انہوں نے ڈو مور کے لئے فون کرنا ہے تو نہ کریں‘۔ سوچنا چاہئے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ سینگ پھنسا کر کون سے سفارتی، اسٹریٹیجک اور معاشی مفادات حاصل کرسکتا ہے؟ اگر اسلام آباد براہ راست واشنگٹن کے سامنے کھڑا ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے کیا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ اس خطے سے فوجیں نکال کر اپنے مفادات کامحور مشرق وسطیٰ اور بھارت کو بنائے گا۔ اس صورت میں پاکستان کاسفارتی اور اسٹریٹیجک رسوخ متاثر ہوگا۔ اسے امریکہ کے ساتھ معاملات کرنے کے لئے اشتعال انگیز بیانات کی بجائے سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کا ثبوت دینا چاہئے جو فی الوقت پاکستانی قیادت کی ترجیح نہیں ہے۔
اس معاملہ فہمی کا ثبوت بھارت نے دیا ہے جس نے خفیہ طور سے دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ بھارت ہر صورت میں افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مواصلت اس حوالے سے اہم سفارتی اقدام ہے۔ معید یوسف نے ایک دوسرے ٹی وی انٹرویو میں اس ملاقات کو بھارت کے لئے ’باعث شرم‘ قرار دیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ اس ملاقات سے ناکام ہوکر واپس گئے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’بھارتی وزیر خارجہ کسی اخلاقی اصول کی بنیاد پر طالبان سے ملنے دوحہ گئے تھے‘۔
پاکستانی لیڈر جب یہ سمجھنے لگیں گے کہ باہمی تعلقات اخلاقیات کی بجائے قومی مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں، تب ہی ملکی خارجہ پالیسی کو نعروں کی بجائے ٹھوس مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ