کراچی یونیورسٹی میں ایک خود کش دھماکہ میں تین چینی استاد اور بس کا ڈرائیور جاں بحق ہوئے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں فوج اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں میں دو فوجی جوان شہید ہوگئے۔ ملک میں سیاسی بحران کے علاوہ قومی سلامتی اور عوامی جان و مال کو لاحق اندیشوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
ان دونوں سانحات کے بعد روٹین کے سرکاری بیانات سامنے آئے ہیں۔ ایسے بیانات البتہ نہ تو مسئلہ کا احاطہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی حفاظت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی حکومت ’بے اختیار‘ ہونے کے باوجود اپنے بااختیار ہونے کا بھرم قائم رکھنا چاہتی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کراچی یونیورسٹی سانحہ پر رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے چینی حکام کو یقین دلایا ہے کہ اس خود کش حملہ میں ملوث عناصر کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جنوبی وزیرستان کے سانحہ پر ایک بیان میں بتایا ہے کہ فوجی دستے نے دلیری سے دہشت گرد عناصر کا مقابلہ کیا اور اب متاثرہ علاقے میں ناپسندیدہ عناصر کی بیخ کنی کے لئے آپریشن کیا جارہا ہے۔
قومی سماعت کے لئے یہ بیانات اور تسلّی جانی پہچانی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا تھا۔ پہلے آپریشن کا مقصد دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ تھا جس دوران ہزاروں دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ان کارروائیوں میں پاک فوج کے کئی سو اہلکاروں و افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔ آپریشن ضرب عضب کے ابتدائی دنوں میں دس لاکھ سے زائد لوگ شمالی وزیر ستان سے بے گھر ہوئے ۔ اس نقل آبادی اور اس کی آباد کاری پر کثیر قومی وسائل صرف ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2017 میں فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد آپریشن ضرب عضب کوآپریشن ردالفساد کا نام دیا۔ آئی ایس پی آر نے نئے آپریشن کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس کے تحت اندرون ملک انتہا پسند عناصر کی بیخ کنی کا عزم کیا گیا ہے تاکہ ملک میں مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ہوسکے اور دہشت گردوں کو عوامی سطح پر سہولت و حمایت فراہم کرنے والے عناصر کا قلع قمع ممکن ہوسکے۔
اس دوران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ پر ملکی قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ دہشت گرد گروہوں کی مالی امداد کے نیٹ ورک کو ختم کیا جاسکے۔ عالمی ادارے کو مطمئن کرنے اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا اور انہیں مختلف مقدمات میں طویل المدت سزائیں بھی دی گئیں۔ ان میں سب سے نمایاں اس گروہ کے سربراہ حافظ سعید کی گرفتاری و سزا تھی کیوں کہ انہیں عسکری اداروں کا چہیتا سمجھا جاتا تھا۔ ان سب اقدامات کے باوجود ملک میں مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہؤا اور نہ ہی عسکری قیادت کی حوصلہ افزائی سے سماجی زندگی کو متاثر کرنے والے شدت پسند مذہبی گروہوں کی کارروائیاں کنٹرول کی جاسکیں۔ بلکہ اس کے برعکس تحریک لبیک کے نام سے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے ’ حرمت رسول کی حفاظت‘ کے نام پر قومی منظر نامہ پر خود کو منوایا۔پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں سزا پانے والے ممتاز قادری کی حمایت میں ابھرنے والے اس گروہ نے سب سے پہلے 2017 میں فیض آباد دھرنا کے ذریعے حکومت وقت کو چیلنج کیا۔ اگرچہ اس دھرنا میں شامل لوگوں کی تعداد بہت محدود تھی لیکن اسے میڈیا میں وسیع پبلسٹی ملی اور سیاسی اہمیت کا حامل سمجھا گیا۔ حتی کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس دھرنے کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تو آرمی چیف کا یہ بیان منظر عام پر آیا کہ باہمی مفاہمت سے معاملات حل کرنےچاہئیں، پاک فوج اپنے ہی لوگوں پر گولی نہیں چلاسکتی۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو اس گروہ کے ساتھ اسی کی شرائط پر تحریری معاہدہ کرنا پڑا ۔ دھرنا ختم ہونے پر فوجی افسر مظاہرین میں نقد رقم کے لفافے تقسیم کرتے بھی پائے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی اور اس میں عسکری و سیاسی عناصر کے ملوث ہونے کا جائزہ لینے اور ایسے رویوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ عام قیاس ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان حکومت نے دراصل اسی فیصلہ کی وجہ سے ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس وقت چونکہ عمران خان کی حکومت اور فوج میں گاڑھی چھنتی تھی اس لئے سیاسی لیڈر اعلیٰ عدلیہ کے خلاف عسکری قیادت کا ہتھیار بننے پر آمادہ تھے۔ تاہم اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ریفرنس ان کی بڑی غلطی تھی۔ البتہ اس اعتراف سے اب حالات کا رخ تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ عمران خان یہ بتانے پر آمادہ نہیں ہیں کہ انہوں نے کن عناصر کو خوش کرنے کے لئے یہ ’غلط‘ فیصلہ کیا تھا۔
لبیک تحریک نے فرانس میں توہین رسالت کے بعض واقعات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بھی احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ ایک مرحلے پر تحریک لبیک کو غیرقانونی قرار دے کر اس کے لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا تاہم جب گزشتہ سال اکتوبر میں جہلم کے نزدیک تحریک لبیک کا پر جوش جتھا ملکی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مسلح تصادم پر آمادہ تھا تو ایک بار پھر آرمی چیف کا جذبہ خیر سگالی کام آیا اور مفتی منیب الرحمان کے ذریعے حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مفاہمت کروا دی گئی ۔ مذہبی انتہاپسندی کا پرچار کرنے والے جس گروہ کو حکومتی نمائیندے چند روز پہلے ملک دشمن اور فساد برپا کرنے والا قرار دیتے تھے ، اس کے ساتھ معانقہ کرلیا گیا اور اسےقانونی سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اسی معاہدہ کے تحت تحریک لبیک کے لیڈر سعد رضوی سمیت تمام گرفتار لوگوں کو رہا کردیا گیا ۔ ان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات یا تو واپس لے لئے گئے یا عدم پیروی کی وجہ سے ختم ہوگئے۔
یہ مختصر جائزہ لینے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ جس مذہبی انتہا پسندی سے تشدد اور دہشت گردی کے رجحانات فروغ پاتے رہے ہیں، مملکت خداداد پاکستان میں کسی نہ کسی عذر کی بنا پر اس کی سرپرستی ضروری سمجھی جاتی رہی ہے۔ اس کے باوجود معاشرے میں عمومی امن و امان کا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کیا جاسکا۔ بلکہ جو انتہا پسندی افغان جنگ کے دوران محض دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عناصر میں دیکھی جاتی تھی، وقت اور حالات نے اس کا رخ بریلوی مسلک کی طرف موڑ دیا ۔ حالانکہ اس گروہ کو عام طور سے صوفی اسلام کا پیروکار سمجھتے ہوئے بےضرر اور عدم تشدد کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ البتہ لبیک تحریک کے بینر تلے اس مسلک سے تعلق رکھنے والوں نے بھی بہیمیت کے افسوسناک مظاہر پیش کئے۔ انتہا پسندی کو قبول کرنے اور کسی نہ کسی عذر پر اس کی سرپرستی کے رویہ نے ہی دراصل ملک میں ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں تشدد اور دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں ہونے والی جھڑپ کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے جو بدستور افغانستان میں محفوظ ہیں اور اپنی پناہ گاہوں سے پاکستانی افواج پر حملے کرنے سے باز نہیں آتے۔ پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان کی سابق حکومت کے دور میں بھارتی ایجنسیاں وہاں سرگرم تھیں اور پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی کرتی تھیں۔ ان دعوؤں کے مطابق جنوبی وزیرستان کی جھڑپ میں ملوث پاکستانی طالبان کے علاوہ بلوچستان قوم پرستوں کو بھی افغانستان میں بھارتی انٹیلی جنس تربیت دیتی تھی اور وسائل فراہم کرتی تھی ۔ افغان انٹیلی جنس بھارت کی معاونت میں پیش پیش تھی۔ البتہ اس سال جنوری میں کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے باوجود صورت حال میں قابل ذکر تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ جنوبی وزیرستان اور کراچی کے حملے واضح کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ملکوں پر الزام لگانے سے تشدد اور دہشت گردی کے حقیقی عوامل کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی ان کا مکمل طور سے خاتمہ ممکن ہے۔
آج ملک میں دہشت گردی کے رونما ہونے والے دونوں واقعات میں اسی نقطہ نظر سے غور کرنے اور شدت پسندی کے حقیقی عوامل کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل کو تحقیقاتی رپورٹیں طلب کرنے اور مذمت کے روٹین دعوؤں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے دو روز پہلے د ورہ بلوچستا ن کے دوران لاپتہ افراد کے معاملہ پر اپنی بے بسی کا اظہار کیاتھا اور کہا تھا کہ وہ خود اس معاملہ پر رنجیدہ ہیں اور ’بااختیار ‘ لوگوں کے سامنے اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک ملک میں آئین کے احترام کی وسیع تر بنیاد کو مضبوط نہیں کیا جائے گا اور ہر گروہ، ادارے اور طاقت کے ہر مرکز کو بہر صورت قانون پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک نہ تو لاقانونیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قومی مفاد یا غیر ملکی سازش جیسے بہانوں سے ملکی آئین سے روگردانی کا سد باب ہوسکتا ہے۔
جس روز ملک کا وزیر اعظم بلوچستان کے کسی متاثرہ خاندان کی داستان الم سن کر اس کے ساتھ ظلم روا رکھنے والے عناصر کو عدالتی کٹہرے میں لانے کا حکم صادر کرے گا ۔ اور جس دن ملکی عدالت آئین و قانون کی خلاف ورزی کے لئے عذر تراشی کو مسترد کرکے قانون و آئین شکن عناصر کو جوابدہی پر مجبور کرے گی ۔۔۔ اسی روز امید کی ایک نئی کرن روشن ہوگی۔ تب ریاست پاکستا ن جائز طور سے ان عناصر سے بھی قانون کے احترام کا مطالبہ کرسکے گی جو کسی نہ کسی بہانے قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنے تئیں عوامی حقوق کی حفاظت کا فرض ادا کرتے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ