لاہور: یتیم خانہ چوک لاہور میں کالعدم قراردی گئی تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا ختم کرانے کے لیے پولیس آپریشن کے نتیجے میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مختلف شہروں میں دھرنا ختم ہونے کے باوجود لاہور میں یہ دھرنا مسلسل جاری تھا اورسینکڑوں افراد یتیم خانہ چوک پر موجودتھے۔ گزشتہ کئی روز سے یہ تمام افراد سڑک پر ہی نماز ادا کرتے تھے اوراس دوران احتجاج بھی جاری رہا۔اتوار کی صبح پولیس نے دھرناختم کرانے کے لیے آپریشن کیا جس کے نتیجے میں متعددافراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کی مزاحمت اور جوابی پتھراؤ کے بعد پولیس پسپا ہونے پر مجبور ہوگئی جس کے بعد ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں بھی دشواریوں کاسامنا ہے۔علاقے میں انٹرنیٹ بند کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔
مظاہرین نے لاہور کے علاقے موہلنوال، کرول گھاٹی، رنگ روڈ، بتی چوک، محمود بوٹی کو بھی اب تک بند کر رکھا ہے۔
بی بی سی کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ملتان روڈ پر واقع یتیم خانہ چوک میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاجی کارکنوں اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں ہیں جس کے نتیجہ میں ہلاکتوں اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق یہ آپریشن ڈی ایس پی نواں کوٹ سمیت پولیس کے پانچ اہلکاروں کی بازیابی کے لیے کیا جا رہا تھا۔
کالعدم ٹی ایل پی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے اتوار کی صبح ان کے مرکز پر آپریشن کیا جس میں ان کے دو کارکنان ہلاک جبکہ 15 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کی مرکزی شورٰی کے رہنما علامہ شفیق امینی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہلاک کارکنان کی تدفین اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ’فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال نہیں دیا جاتا۔‘
خیال رہے کہ مذکورہ علاقے میں ٹی ایل پی کا احتجاج رواں ہفتے سے جاری ہے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ایل پی نے ملک کی 192 جگہوں کو بند کیا تھا، جن میں سے 191 جگہیں کلیئر کرا لی گئی ہیں۔
’صرف لاہور یتیم خانہ چوک بند ہے اور اب بھی حالات کشیدہ ہیں۔۔۔ ان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان نے ان پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے کے بعد یرغمال بنا رکھا ہے۔ پولیس کے مطابق ’رینجرز کے دو جوان بھی تحریکِ لبیک کے کارکنان کی حراست میں ہیں۔‘
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان کے اہلکاروں نے گذشتہ روز قریبی پٹرول پمپ سے پٹرول سے بھرے دو ٹینکر بھی قبضہ میں لیے تھے جو تاحال ان کے مرکز کے قریب کھڑے ہیں۔
’اس پٹرول سے وہ پٹرول بم بنا کر پولیس پر حملے کرتے رہے ہیں۔ تاحال ایس ایچ او تھانہ نواں کوٹ بھی لاپتہ ہیں۔‘
پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان نے ایک ’پولیس اہلکار کو گذشتہ روز اس وقت اغوا کیا جب وہ روٹی لینے کے لیے قریبی تندور پر پہنچے تھے۔ ڈی ایس پی نواں کوٹ اور دیگر پولیس اہلکاروں کو نواں کوٹ تھانے پر حملے کے دوران اغوا کیا گیا۔‘
ڈی ایس پی نواں کوٹ عمر فاروق بلوچ کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی مبینہ حراست میں ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تاحال آپریشن روک دیا گیا ہے کیونکہ پولیس کے اہلکار تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان کی حراست میں ہیں اور ’وہاں آئل ٹینکر موجود ہیں جن میں 55000 لیٹر پٹرول موجود ہے اور اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ‘میں سب پر واضح کر دوں کہ: ہماری حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کی۔‘
‘جب انھوں نے ریاستی عملداری کو للکارا اور کوچہ و بازار کو فساد سے بھرتے ہوئے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ آور ہوئے۔ کوئی بھی آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔’
اس سے قبل انھوں نے پولیس کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک بھر میں انتشار کو ہوا دے کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی غرض سے پھیلائے جانے والے منظم تشدد کا جوان مردی سے سامنا کرنے پر میں اپنی پولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔‘
‘چار جوان شہید جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوئے۔ قوم ان ہیروز کی مقروض ہے چنانچہ شہدا کے اہلِ خانہ کی ہم مکمل دیکھ بھال کریں گے۔’
فیس بک کمینٹ