کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ہجومی قتل کی ایک جیسی کارروائیوں کی شدت اور تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان کارروائیوں کی وجوہات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی معاشروں میں مابعد استعماریت خصائص بھی یکساں طور پر موجود ہیں؟ کیا ماہرین نے استعماریت کے شکار معاشروں میں ”غیر“ The Other پیدا کرنے کے ایک مسلسل رجحان کی نشاندہی نہیں کی؟ کیا یہ بھی محض ایک اتفاق ہے کہ یہی وہ ”غیر“ ہے جس کے بغیر قاتل ہجوم اپنی کارروائیاں Lynching انجام نہیں دے سکتے۔ کیا آپ اس کو بھی اتفاق کہیں گے کہ جس ”غیر“ کو یہ قاتل ہجوم اپنا نشانہ بناتے ہیں اصل میں وہ ایک غیر حقیقی اور ناقابل دفاع دشمن ہے جس کو معاشرے میں نئی سے نئی تفریق پیدا کرنے کے لیے بہت ہوشیاری سے تخلیق کیا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی محقق نے چار برس 2014۔ 2017 میں ان قاتل ہجوموں کی 22 کارروائیاں رپورٹ کی ہیں۔ ہندوستان سے ایک سال میں آٹھ کارروائیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔ جبکہ ایک اور محقق کے مطابق اوسطاً ہر سال ہندوستان میں قاتل ہجوم بائیس سے زیادہ ایسی کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔
تلمبہ کے نواح میں قاتل ہجوم نے جو کارروائی کی ہے وہ سیالکوٹ کے واقعے کے بعد دس ہفتے کے اندر دوسری بڑی کارروائی تھی۔ اس کے دو دن بعد فیصل آباد اور پھر اگلے ہی روز مظفرگڑھ میں بھی اسی نوعیت کے واقعات ہوئے۔ خوش قسمتی سے ان دونوں واقعات میں پولیس کی بروقت مداخلت کی وجہ سے قاتل ہجوم اپنے شکار فرد کی جان نہ لے سکا۔ ان تینوں واقعات میں قاتل ہجوم کا نشانہ بننے والے تینوں افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے کلام مقدس کے اوراق کی بے حرمتی کی ہے اور اتفاق سے تینوں افراد مبینہ طور پر ذہنی امراض میں مبتلا تھے۔
کیا قاتل ہجوموں کی یہ کارروائیاں ہمارے معاشرے میں نئی ہیں؟ آپ کو یاد ہو گا کہ انیس سو پچانوے میں گوجرانوالہ کے ایک حافظ قرآن ڈاکٹر کو ایک قاتل ہجوم نے زندہ جلا دیا تھا۔ اس پر بھی قرآن کے اوراق نذر آتش کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان میں قاتل ہجوم کی اکثر کارروائیاں توہین مذہب کے مبینہ واقعات کے بعد دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعینہٖ یہی وجوہات ہندوستان میں نظر آتی ہیں۔ وہاں پر ان کی بجائے 91 فیصد واقعات گائے کی توہین جیسے الزامات کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں۔ وجوہات میں توہین مذہب کے الزامات کی مماثلت کے باوجود قاتل ہجوموں کی پاکستان اور ہندوستان میں کارروائیوں میں کچھ فرق بہرحال موجود ہیں۔ ہندوستان میں یہ ہجوم قابل شناخت ہندو گروہوں کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں ہیں ان گروہوں میں زیادہ نمایاں وشوا ہندو پرشاد، بجرنگ دل اور مقامی گاؤ رکھشا گروہ شامل ہیں۔ پاکستان کے قاتل ہجوم اگرچہ باقاعدہ کسی قابل شناخت گروہ سے اپنی وابستگی ظاہر تو نہیں کرتے لیکن ان کے نعرے وہی ہیں جو تحریک لبیک پاکستان لگاتی ہے۔ تاہم تحریک لبیک کی قیادت نے ان قاتل ہجوموں کی سرپرستی کا نہ کبھی دعوی کیا ہے اور نہ کبھی ان کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
ہندوستان کے برعکس پاکستان کے قاتل ہجوم عجلت میں تشکیل پاتے ہیں جو بظاہر کسی طویل اور سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر کارروائی کر گزرتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس کے سبب ان کی شناخت مشکل اور بیخ کنی دشوار ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں قاتل ہجوم کے افراد جب پکڑے جاتے ہیں تو بظاہر ان کے مقدمات میں ان کو معاشرتی اور گروہی تعاون بھی نہیں ملتا۔ ایک اطلاع کے مطابق سیالکوٹ کے واقعات میں ملوث ملزمان کو اپنے مقدمات کی پیروی میں کسی وکیل کا تعاون تک نہیں مل سکا ہے۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستانی پولیس کا ہر تیسرا افسر گائے ذبح کرنے پر قاتل ہجوم کی رائے اور ردعمل سے ذہنی طور پر متفق پایا گیا۔ پاکستان کی اکثریت بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ نہ کرے جو قاتل ہجوم کر گزرتے ہیں لیکن وہ قاتل ہجوم کے جذبات کی تائید کرتے ہوئے یہ ضرور کہے گی کہ ”جب توہین ہوگی تو یہ سب کچھ تو ہو گا“ ۔
قاتل ہجوموں کی اس طرح کی کارروائیاں Lynching صرف پاکستان اور ہندوستان تک محدود نہیں ہیں۔ اگر ہجوموں کی اس طرح کی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو ایک بات بہت صاف ہو کر نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ہجوم معاشرے کی طاقتور اکثریت سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور معاشرے کے کمزور ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ اپنی قاتلانہ سرگرمیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ تاریخی طور پر مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے کمزور گروہوں کے افراد، خواتین اور مختلف جنسی ترجیحات رکھنے والے مرد و خواتین ان قاتل ہجوموں کی کارروائیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ امریکہ کے سیاہ فام، گیارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد مغرب میں رہنے والے مسلمان، اور ایل جی بی ٹی LGBT سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص ان قاتل ہجوموں کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس لحاظ سے ایک نئے رجحان کا اضافہ ہوا ہے۔ ان دونوں ممالک میں چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد کو بھی ہجوموں نے اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔
دنیا بھر میں قاتل ہجوموں کی اس طرح کی کارروائیوں کے ایک سرسری جائزے سے بھی یہ بات واضح ہو سکتی ہے کہ گو واقعات دنیا کے مختلف حصوں اور معاشروں میں رونما ہوتے ہیں مگر ان میں بہرحال ایک گہری مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ قاتل ہجوموں کی یہ کارروائیاں ان معاشروں میں موجود دیگر جارحانہ اور تشدد آمیز رجحانات کا ہی ایک پہلو ہوتی ہے۔ یعنی قاتل ہجوموں کے ہاتھ آیا قتل کرنے کا ایک اور طریقہ۔ قاتل ہجوم ان معاشروں میں زیادہ متحرک ہوتے ہیں جہاں پہلے ہی تشدد پر اکسانے والے اور تشدد تک پہنچنے والے اختلافات اور تفرقے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں کمزور اقلیت قاتل ہجوموں کی کارروائیوں کا نشانہ بننا شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض ہو چکا ایسا ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں مصنوعی اختلافات کو جان بوجھ کر ایک خونریز تفریق تک پہنچا دیا جائے۔ مابعد استعماریت معاشروں میں موجود طاقت کے مراکز اختلافات کو اس خونی تفریق تک پہنچانے میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں قاتل ہجوموں کی کارروائیاں گو بظاہر کسی منصوبہ بندی اور کسی منظم گروہ کی شرکت کے بغیر ہوتی دکھائی دیتی ہیں تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ قابل شناخت گروہوں نے قابل شناخت مقاصد کے لئے اختلافات کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ تقسیم اور تفریق کو اس نہج تک پہنچانے کے لئے شعلہ بیان خطیبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نفرت کی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرسکیں۔ ایسے خطیب معاشروں کو وہ نعرے اور نظریے دیتے ہیں جو فرد کو ہوش و خرد سے بیگانگی کی اس سطح پر پہنچا دیں جہاں دلیل اور انسانیت بے معنی ہو جاتے ہیں۔ نفرت کے یہ مبلغ خود راستی کے اس منصب پر خود اور اپنے مقلدین کو پہنچا دیتے ہیں جہاں ان سے مختلف ہر فرد ان کو غیر “The Other” دکھائی دیتا ہے۔ یہ ”غیر“ ہر صورت میں غلط، خطرناک اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ اس کی موجودگی قاتل ہجوم کی زندگی، نظریات اور شناخت سب کے لیے خطرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے یہ غیر ہر صورت میں ناقابل معافی بن کر رہ جاتا ہے۔ طاقتور اکثریت کمزور اقلیت سے ایک ایسے خوف میں مبتلا ہوتی ہے جو اس اکثریت کا اپنا تخلیق کردہ ہوتا ہے۔ شعلہ بیان خطیب اس خوف کو اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں قاتل ہجوم کے پاس صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے۔ اپنی یا پھر اپنے سے کم زور اقلیت سے تعلق رکھنے والے فرد کی موت۔ طاقت کا توازن چونکہ ہجوم کے حق میں ہوتا ہے اس لئے جان صرف کمزور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ کمزور فرد انسان نہیں رہتا بلکہ ایک شے یعنی ایک چیز بن جاتا ہے۔ شے بنتے ہی اس فرد کے لئے قاتل کے دل میں رتی بھر ہمدردی باقی نہیں رہتا۔ اور کمزور کے حوالے سے اس مصنوعی خوف کو کمزور کے خاتمے پر منتج ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ طاقتور کا خوف اعصاب کو شل کر دیتا ہے جبکہ کمزور کا خوف اعصاب کو قوت عطا کرتا ہے اور اور آخری حدوں تک پہنچے ہوئے تشدد کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں تو قاتل ہجوم کا نشانہ بننے والے افراد کا کسی باضابطہ اقلیتی گروہ کا ممبر ہونا تو درکنار ان کی ذہنی صحت تک مشکوک ہوتی ہے۔ ان پر نہ تو کسی دنیاوی سزا کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ان پر کوئی مذہبی حد جاری کی جا سکتی ہے۔ یہ افراد اتنے کمزورر ہوتے ہیں کہ اپنی جان بچانا تو درکنار اپنے حق میں کوئی دلیل تک نہیں دے سکتے۔ اپنے پر لگے ہوئے الزام کی نفی تک نہیں کر سکتے۔ ذہنی طور پر غیر صحت مند افراد کا قاتل ہجوموں کا نشانہ بننے کا رجحان اور اعزاز سب سے پہلے پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق دنیا کا کوئی اور ملک تاحال یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔ (غالباً نازی اقتدار کے ابتدائی زمانے میں ایسے کچھ واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے۔)
غالب اکثریت کا یہ احساس اور رجحان جہاں وہ کمزور اقلیت کے خوف میں مبتلا ہو جائے اکثریت پرستی Majoritarianism کہلاتا ہے۔ یہ رجحان اکثریت کے ان افراد میں پیدا کیا جاتا ہے جو مالی اور اقتصادی طور پر معاشرے کے نچلے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں موجود اقتصادی محرومیاں جو غصہ پیدا کرتی ہیں وہ ان کو قاتل ہجوموں کا حصہ بننے پر اکساتا ہے۔
قاتل ہجوموں میں متحرک افراد تو چند ایک ہوتے ہیں تاہم ان کارروائیوں کو خوف اور اشتیاق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھنے والے بہت۔ قاتل ہجوموں کی کارروائی شروع ہوتے ہی ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔ اس مجمع میں شامل یہ لوگ یا تو قاتلوں سے نظریاتی اتفاق رکھتے ہیں یا پھر اتنے بزدل ہوتے ہیں کہ قاتل ہجوموں اور ان کا نشانہ بننے والوں کے بارے میں کوئی رائے تک قائم کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ اسی کو فسطائیت کی عوامی نفسیات کہا جاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ