آج ہمیں ایک اورطرح کی کربلا کا سامنا ہے۔فرق اتنا ہے کہ اب عصمتوں کے قاتل بر سرپیکار ہیں۔حال ہی میں قصور میں سات سالہ زینب کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔اس سانحے نے یہ واضح کر دیا کہ معاشرے میں بوالہوسی کا دور دورہ ہے ظالم نے ننھی زینب کو شباب تک پہنچنے ہی نہیں دیا کہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔وہ راہزن کا ہاتھ تھامے اسے محافظ سمجھتی رہی۔اسی لمحے زینب کے والدین کعبہ کی جالی تھامے دعا گو تھے کہ کچھ دیر بعد انھیں حرم شریف میں بیٹی کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی۔صبر کی دعا کو قبول کر لیا گیا اور اس ظلم عظیم کا گواہ حرم شریف بھی بن گیا۔ابھی قدرت کو مزید امتحان مقصود تھا۔کچھ دن بعد والدین کو اندوہناک خبر ملی کہ زینب کی لاش ایک آلائش کے ڈھیر سے ملی ہے۔ورثا لاش کے حصول کے لیے گئے تو ایک صبر آزما صورت حال سے دوچار ہوئے جب ڈی پی او قصور نے تقاضا کیا کہ لاش ڈھونڈنے والے محافظوں کو دس ہزار روپے انعام سے نوازا جائے۔جیسے تیسے لاش وصول کی گئی۔بعد ازاں جب اہلیان قصور لاش کو سڑک پر رکھے انصاف کا تقاضا کر رہے تھے تو قصور پولیس نے فائرنگ کی اور دو مظاہرین کی جان لے لی۔بابا بلھے شاہ کی سر زمین پر انسانیت سوز ظلم سے نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی گئی۔میڈیا،ارباب اقتدار،مذہبی جماعتیں غرض زندگی کے تمام شعبوں کے نمائیندوں نے اس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کو زینب کی تصاویر سے رنگین کر دیا گیا۔مگر صد افسوس! ہم وہ خالی ڈھول ہیں جو گرجتے تو بہت ہیں مگر عملی طور پر ہمیشہ اپاہج کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔تاہم حکمران متعدد دعوے کر رہے ہیں اورفیصلہ کیا گیا ہے کہ چائلڈ ابیوز پر نیا قانون بنا یا جائے گا۔دوسری جانب حزب اختلاف بھی زینب کے نام پر مال روڈ کی سڑک پر متحد ہو کر اپنی قوت کا مظاہرہ کررہی ہے اورپس منظر کے طور پر جدید دھنوں پر ایک پاپ نوحہ تیار کرایا گیاہے ۔بیرون ملک سے کچھ سیاسی مہرے بھی واپس آ چکے ہیں کیوں کہ یہ وقت حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کے لیے سازگار ہے۔ قصہ کوتاہ سانحہ ماڈل ٹاؤ ن ہو یا سانحہ قصور، انصاف کا بول بالا ہو یا ناں۔مگر جب بھی:
معصوم کا خون بہے گا تو سٹیج سجے گا
تالی بجے گی اور سیاست جمے گی
دراصل ہمارے ملک میں بے قصور کا خون رائیگاں نہیں جاتا،یہ خاصا منافع بخش سودا ہے۔سیاسی کاروبار چمک اٹھتا ہے۔کسی بھی میڈیا چینل کی ریٹنگ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔خبروں کو تروڑ مروڑ کر اور مصالحہ لگا کر ایسے پیش کیاجاتا ہے کہ چینل کی مقبولیت بڑھنے لگے اور پھر ٹی آر پی میں بھی اضافہ ہوتا جائے۔سونے پہ سہاگہ مختلف زرہ بکتر اینکر بھی اس محاذ آرائی کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔حال ہی میں ایک معروف چینل کی اینکر اپنی کم سن بیٹی کو ہمراہ لے آئیں اور زینب زیادتی کیس پر ایسی دلدوز گفتگو کی کہ انھیں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی۔پس ثابت ہوا کہ ہمارے معاشرے میں عام انسان کی قدر وقیمت ناں سہی مگر مظلوم کا ناحق خون بہے تو بہتوں کا روزگار ضرور بندھ جاتا ہے۔
تاحال زینب کے علاوہ دیگر سات بچیوں کا قاتل نہیں پکڑا جا سکا شاید یہ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔تدریسی مراکزمیں جنسی تعلیم دینا ہمارا بنیادی مقصد بن چکا ہے کیوں کہ اسلامی شریعت کا نفاذ مخالفین اسلام کو گوارا نہیں۔اسی لیے قرضوں کا منوں بوجھ اٹھائے ارباب اقتدار خواہاں ہیں کہ معصوم ذہنوں کو بالیدہ کرنے کی تعلیم ناگزیر ہے جو کہ بین الاقوامی سازش کی ایک کڑی ہے۔زینب بیٹی!! پس طے ہوا کہ تم بین الاقوامی فرعونوں کے بھینٹ چڑھائی گئی ہو۔مگر اب یہ مٹی تمھاری حرمت پر آنچ نہیں آنے دے گی۔یہ تمھاری اصل نگہبان ہے۔تم جس دنیا میں سانس لے رہی تھی وہ ایک نائکہ کی مانند ہے جو عزتوں کی بولی لگاتی ہے۔اور ارباب اختیار کی مثال اس دلال کی سی ہے جو بین الاقوامی منڈیوں میں سودا کرتا ہے جہاں معصومیت بے بسی کے گھنگرو باندھے تھرکتی ہے۔اور تماش بین معاشرہ رقص بسمل کا بازار سجائے مسرور ہے۔
فیس بک کمینٹ