گزشتہ اگست میں قائم ہونے والی حکومت کو چھ مہینے مکمل ہو گئے۔ یہ مدت بے سمتی، بے چینی، نا اہلی، عدم اعتماد اور افراتفری سے عبارت رہی۔ چھ برس کی غوغا آرائی اور ریشہ دوانیوں کی مدد سے قائم ہونے والی حکومت کا رنگ و روغن اکھڑ گیا ہے۔ کشتی کے تختے بری طرح ہل رہے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ گہرے پانیوں کی طرف بڑھتی ناؤ کو کس گھاٹ اترنا ہے۔ سیاسی صورت حال یہ ہے کہ عمران حکومت نے حزب اختلاف کی انہدامی یلغار سے اقتدار کے دفاع اور استحکام کا چولا ہی تبدیل نہیں کیا۔
انتخاب کے ذریعے حکومت کی تبدیلی آئینی بندوبست کا تسلسل ہوتی ہے۔ عمراں خان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اسی نظام کے تحت منتخب ہونے والی گزشتہ حکومتیں گویا دور جاہلیہ کا نشان تھیں۔ اب عمران کی ذات بابرکات کی صورت میں رحمت خداوندی کا ظہور ہوا ہے۔ وہ کبھی پچھلے دس برس کی ہجو پڑھتے ہیں، کبھی تیس برس کا مرثیہ رقم کرتے ہیں اور کبھی ستر برس کے پیچ وخم پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اس طرز بیان سے ان کی حکومت سے توقعات بڑھتی ہیں۔ زمینی صورت حال یہ ہے کہ حکومت تین اسباب کی بنا پر ناکردہ کاری کا شکار ہے۔ اول: عمران خان کی ذاتی افتاد، دوم: تحریک انصاف کی جماعتی ساخت، سوم: اتحادی حکومت کے داخلی تضادات۔
عمران خان قومی سیاسی روایت کا نامیاتی حصہ نہیں ہیں۔ سید ابواعلیٰ مودودی کے قرارداد مقاصد پر تبصرے جیسی کیفیت ہے، ’اس سے پہلے بارش ہوئی اور نہ اس کے بعد روئیدگی‘ ۔ عمران خان ضیا آمریت میں اٹکھیلیاں کرتے رہے، کرکٹ سے ریٹائر ہو کر سیاست کو بنظر حقارت رد کرتے رہے اور پھر اپنی شخصی کشش کے بل پر سیاسی جماعت بنائی۔ ان کا تاریخ اور سیاست کا علم سطحی ہے۔ انہوں نے کبھی پارلیمانی مباحث میں حصہ لیا اور نہ قانون سازی کے رموز و اسرار سیکھے۔
اسٹرٹیجک پلاننگ میں ان کی اہلیت محل نظر ہے۔ وہ کسانوں، مزدوروں اور ملازمت پیشہ طبقات کے حالات سے واقف نہیں۔ نعرے بازی کے شوق میں انہوں نے صنعتی اور کاروباری طبقے سے نفسیاتی فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ وفاق پاکستان کی نزاکتوں سے آگہی کا یہ عالم کہ سردار اختر مینگل جیسے اتحادی سے بھی ہم دلی پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان نے ریٹائرڈ سرکاری اہلکاروں کی شفق رنگ سادہ لوحی سے فیض اٹھایا ہے۔ کہولت کی ناگزیر خود پسندی میں گرفتار اتالیق نما کرداروں کے زیر اثر عمران خان میں ذاتی مسیحائی کے رجحان کو مہمیز ملی۔
شخصی اقتدار اپنے قریب ترین حلیفوں کے لہو سے نمو پاتا ہے۔ ماؤ نے اتحادیوں سے پیچھا چھڑانے میں 25 برس لئے۔ اسٹالن نے ہم سر رہنماؤں کو ختم کرنے میں دس برس لگائے۔ ہٹلر نے ارنسٹ روہم جیسے ساتھیوں کو ایک سال میں ختم کیا۔ عمران نے چھ ماہ میں جہانگیر ترین، اعظم سواتی اور علیم خان کو اقتدار کی تصویر سے غائب کر دیا۔
تحریک انصاف کسی مربوط سیاسی نظریے اور واضح معاشی نقطہ نظر کی بجائے پرجوش مقلدوں کے ہجوم سے متشکل ہوئی ہے۔ تحریک انصاف میں جذباتی اور کم تجربہ کار نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ پارٹی تنظیم کمزور ہے اور نظریاتی خدوخال غیر واضح۔ ایک طرف کارکنوں کا اخلاص ہے اور دوسری طرف یہ ناخوشگوار داخلی احساس کہ تحریک انصاف نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے گفتنی، ناگفتنی سمجھوتے کیے ہیں۔ اس جماعت کا اخلاقی مرکزہ محدود سے مفقود کی طرف بڑھ رہا ہے۔
حکومت اور حکمران جماعت میں ایک دیوار تو بہرصورت موجود ہوتی ہے، تحریک انصاف کے ضمن میں اس دیوار کے ایک طرف دھواں ہے اور دوسری طرف محض غبار۔ اتحادی حکومت بذات خود مستحکم بندوبست کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ عمران حکومت کے اتحادی اجزا کی اضافی کمزوری یہ ہے کہ وہ جمہوری تائید کی بجائے ریاستی سرپرستی کا تشخص رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حکومتی اتحاد کسی مربوط صف بندی کی بجائے مفاد کے دھاگے سے بندھا گروہ ہے۔
سیاست کے دس میں سے نو حصے معیشت سے ترتیب پاتے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد انکشاف ہوا کہ عمران اور ان کے ساتھیوں نے معاشی پروگرام کا خاکہ ہی تیار نہیں کیا۔ مشکل معاشی حالات سے دوچار ہوتے ہی حکومت نے ایسی افراتفری کا مظاہرہ کیا کہ کاروباری طبقہ بدحواس ہو گیا۔ سرمایہ فرار ہونے لگا۔ بیوروکریسی نے قلم چھوڑ دیا۔ ایک برخود غلط منصب دار کی نفسیاتی الجھنوں سے برآمد ہونے والے ڈیم منصوبے میں وزیراعظم بھی شامل ہو گئے۔ 17 جنوری کے بعد سے عمران خان نے ڈیم فنڈ کا نام نہیں لیا۔
فرینکلن روزویلٹ کے ٹینیسی ویلی اتھارٹی منصوبے کی طرز پر 50 لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا۔ ان ہوائی قلعوں کی تعمیر معلوم؟ چھ ماہ میں دو بجٹ پیش کیے، 1100 ارب روپے کا قرضہ لیا۔ مہنگائی بڑھی، افراط زر بڑھا، شرح نمو کا ہدف کم کر دیا گیا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی درجہ بندی گھٹا دی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی تفصیلات کا ابھی انتظار ہے۔ اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ۔ سیکرٹری خزانہ نے البتہ معیشت کے بنیادی خدوخال پر جو رپورٹ پیش کی ہے اس سے ریاست کی معاشی ترجیحات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ ریاست کا ایک شعبہ معاشی وسائل کا بیشتر حصہ استعمال کر رہا ہے اور ہل من مزید کی صدا آ رہی ہے۔
خارجہ امور کا سرنامہ بدستور ایک طفیلی ریاست کا ہے۔ البتہ خارجی آقاؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ داخلی محاذ پر حکومت احتساب کا پھریرا لہرا رہی ہے۔ بدعنوانی کی جوابدہی ملکی قانون کا تقاضا ہے لیکن کوئی حکومت محض ماضی کا احتساب کر کے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآہ نہیں ہو سکتی۔ اگر احتساب قوم کی قسمت سنوار سکتا تو ایوب، ضیا اور مشرف کے احتساب سے ملک نے ترقی کی ہوتی۔ احتساب سیاسی مخالفت کو کچلنے کا ہتھیار بن چکا ہے۔ اس کے ممکنہ نتائج کا اندازہ فلیگ شپ ریفرنس اور صاف پانی اسکینڈل کے فیصلوں سے کیا جا سکتا ہے۔ عمران حکومت کا احتساب کے یک نکاتی ایجنڈے پر اصرار سیاست میں انتشار اور معیشت میں بدحالی لائے گا۔
اس وقت حزب اختلاف کی سیاسی قوتیں حکومت گرانے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ کیونکہ موجودہ حکومت کو گرانے کی کوئی بھی کوشش خوفناک بحران پر منتج ہو گی۔ یہ خدشہ البتہ موجود ہے کہ عمران خان خود ہی کسی انتہائی اقدام پر مائل ہوں۔ ایسے کسی اقدام کے پس پردہ خواہشمندوں کی کوئی کمی نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ عمران خان خواہش کے باوجود شخصی حکمرانی کے لئے درکار سیاسی سرمائے سے محروم ہیں۔ اس جوہڑ کا پانی جن تاریک غاروں سے لایا جاتا ہے، وہاں آسیب کے سائے لرزاں ہیں۔ حالیہ برسوں کی غلطیوں نے اکثر راستے مسدود کر دیے ہیں۔ ایک راستہ اب بھی موجود ہے۔ ملک کی نمائندہ سیاسی قوتوں کے ساتھ قابل عمل ہم آہنگی سے سیاسی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عمران خان ایسی ہم آہنگی کو این آر او کا گمراہ کن نام دیتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت ایک طویل تمثیل کا ذیلی منظر ہے۔ یہ کھیل عمران خان سے شروع نہیں ہوا اور نہ ان پر ختم ہو گا۔ ٹی ایس ایلیٹ اس صورت حال کو کس بلاغت سے بیان کیا۔
No! I am not Prince Hamlet، nor was meant to be;
Am an attendant lord، one that will do
To swell a progress، start a scene or two…
Full of high sentence، but a bit obtuse;
At times، indeed، almost ridiculous—
Almost، at times، the Fool۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ