ملتان میں دو بھائیوں کو پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر منظور پشتین کی اپیل پر مظاہرہ کرنے پر ’بغاوت‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان دو بھائیوں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں متعدد دوسرے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ملتان کے نواں شہر چوک پر چند لوگوں کے ساتھ مل کر پی ٹی ایم کے رہنما ارمان لونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر احتجاج کیا تھا۔ اسی حوالے سے اسلام آباد کے علاوہ کوئٹہ میں بھی متعدد مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں پکڑے جانے والوں میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی خاتون رہنما گلالئی اسماعیل بھی شامل تھیں جبکہ لاہور میں ہفتہ کے روز اسی الزام میں ایک کالج کے استاد ڈاکٹر عمار جان کو پکڑا گیا تھا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی اپیل پر احتجاج کرنے والے بیشتر لوگوں کی اب ضمانتیں منظور کی جا چکی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے پولیس کی کارروائی سے ریاست کی حکمت عملی کے بارے میں متعدد سوال سامنے آئے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ بنیادی طور پر انسانی حقوق کی تنظیم ہے جو پشتون نوجوانوں پر مشتمل ہے اور بعض بنیادی انسانی مطالبوں کی تکمیل کے لئے کام کررہی ہے۔ ان مطالبوں کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ پی ٹی ایم کے نوجوان قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کا بنیادی اصول سامنے لائے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ریاستی ادارں کی طرف سے قومی سلامتی کے نام پر لوگوں کو اٹھانا، غائب کرنا اور کوئی مقدمہ قائمکیے بغیر انہیں حراست میں رکھنے کا طریقہ ختم کیا جائے۔ گزشتہ کئی برس سے دارالحکومت کے علاوہ متعدد دوسرے شہروں میں لاپتہ ہونے والے لوگوں کے اعزہ نے مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہؤا ہے۔ اس معاملہ کی گونج سپریم کورٹ میں بھی سنائی دیتی رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ قرار دے چکی ہے کہ کسی بھی ادارے کو قانونی کارروائی پوریکیے بغیر کسی شہری کے خلاف اقدام کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون سے ادارے ہیں جو قومی مفاد کے نام پر قانون توڑنے کا اہتمام کرتے ہیں اور کسی کو اس کا اعتراف کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ہوتا۔
اس مقصد کے لئے لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے ایک کمیشن بھی کام کررہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا۔ اس کمیشن کے پاس گزشتہ سال اکتوبر تک 5507 لاپتہ افراد کی رپورٹ درج کروائی گئی تھی تاہم کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے 3633 معاملات حل کرلئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا سراغ لگالیا گیا، کچھ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہیں۔ کچھ کو ملک سے مفرور قرار دیا گیا جبکہ بعض لوگوں کے مرنے کی تصدیق کی گئی۔ بلوچستان میں یہ واقعہ اب خبر کی حیثیت نہیں رکھتا کہ اچانک کوئی نوجوان غائب ہوجاتا ہے اور پھر اسی پراسرا ر طریقے سے کسی گلی، سڑک یا پارک میں اس کی لاش مل جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرح لاپتہ افراد کی تلاش کا کام کرنے والا کمیشن بھی دراصل اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہا ہے کہ ملک میں وہ کون لوگ ہیں جو ایک آئینی انتظام کے ہوتے ہوئے بھی شہریوں کی آزادی سلب کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جسے چاہے کسی الزام کے بغیر ’غائب‘ کرسکتے ہیں لیکن کوئی قانون ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اسی لئے یہ مسئلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کے علاوہ بعض لوگوں کو پولیس مقابلہ میں ہلاک کرنے کے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں کراچی میں ایسے ہی ایک مقابلے میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو مار ڈالا گیا تھا۔ اس المناک جرم میں ایک ایس ایس پی راؤ انوار ملوث تھا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو اس ماورائے عدالت قتل کے بعد پشتون نوجوانوں کی زیادہ حمایت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن حیر ت انگیز طور گزشتہ ایک سال کے دوران پی ٹی ایم کی مقبولیت اور تسلسل سے پر امن احتجاج کرنے کے باوجود ابھی تک راؤ انوار یا نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث کسی شخص کو سزا نہیں ہوسکی۔ اس واقعہ کا اہم ترین ملزم راؤ انوار پہلے زیر زمین رہا پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ براہ راست مواصلت اور اس یقین دہانی کے بعد گرفتاری کے لئے پیش ہؤا کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا۔ اس وقت سے راؤ انوار ضمانت پر رہا ہے اور اس مقدمہ میں پیش رفت کا یہ عالم ہے کہ استغاثہ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت کو بتایا کہ اس واقعہ میں ملوث لوگ اس قدر طاقت ور ہیں کہ انہوں نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے اہم ترین عینی شاہد کو غائب کردیا ہے۔ وہ اگر ضمانت پر ہی رہے تو وہ اس مقدمہ کے باقی شواہد بھی مٹا دیں گے۔
اس لاقانونیت اور حکام کی بے حسی کی وجہ سے پشتون نوجوانوں کے غم و غصہ میں اضافہ ہؤا ہے۔ اس کا اظہار پشتون تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ہوتا رہا ہے۔ حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے مطالبات جائز ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کو ناراض بچے قرار دیتے ہوئے یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے بیشتر مطالبات درست ہیں جنہیں پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں ایک پریس کانفرنس میں پاک فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کے مطالبوں کو پورا کرنے کے لئےکیے گئے اقدامات کے بارے میں معلومات بھی فراہم کی تھیں۔ جن میں فوجی چوکیوں میں کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتہ افراد کے معاملات شامل تھے۔ تاہم فوج کو یہ شبہ ہے کہ پی ٹی ایم کو افغانستان سے مدد مل رہی ہے اور یہ تحریک دراصل ہمسایہ ملک کے ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
سیکورٹی ادارے اپنے ان شبہات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں لائے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے غیر ملک کا آلہ کار بننے کے الزام میں پی ٹی ایم کے کسی لیڈر کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے۔ اس کے باوجود ریاستی اختیار اور کنٹرول استعمال کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں اور احتجاج کو میڈیا میں رپورٹ کرنے کی حوصلہ شکنی دیکھنے میں آئی ہے۔ ملک کے سیاست دان اور سول حکومت کے نمائیندے بھی اس معاملہ پر زبان کھولنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ 2 فروری کو لورا لائی میں پی ٹی ایم کے رہنما اور استاد و شاعر ارمان لونی کی پولیس تشدد میں ہلاکت کے بعد پی ٹی ایم نے ملک بھر میں احتجاج کیا تو اس خبر کی ترسیل تو نہیں ہوسکی لیکن پولیس نے متعدد شہروں میں پی ٹی ایم کی حمایت میں مظاہرہ کرنے پر لوگوں کو گرفتار کرنا ضروری سمجھا۔ اب ملتان سے خبر آئی ہے کہ پی ٹی ایم کی حمایت کرنے پر دو بھائیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ارمان لونی کی ہلاکت کی تحقیقات کا اعلان ضرور کیا تھا لیکن باقی تحقیقات کی طرح اس معاملہ میں بھی ہنوز کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ وزیر اعظم سمیت ملک کے کسی لیڈر کو اس سانحہ پر تشویش ظاہر کرنے یا ایک ایسے واقعہ کی اصل حقیقت سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں پشتون شدید بے چینی اور غم و غصہ محسوس کررہے ہیں۔ البتہ جب افغان صدر نے ایک ٹویٹ میں اس تحریک کی حمایت کی تو وزیر خارجہ نے اس کا تند و تیز جواب دینا ضروری سمجھا۔ اور ملک کے متعدد تبصرہ نگاروں نے اشرف غنی کے ٹویٹ کو ان کی سیاسی بدحواسی اور طالبان کی طرف سے افغان حکومت کو نظر انداز کرنے کا رد عمل قرار دیا۔
ملک کی سول یا عسکری قیادت اب تک اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے کہ اگر نوجوانوں کا ایک گروہ مقبولیت حاصل کررہا ہے، اس کے مطالبات بھی جائز ہیں اور وہ قانون کے مطابق ہی لائحہ عمل بنانے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر اس گروہ کی سرگرمیوں کو روکنے، ان کی تشہیر میں رکاوٹیں کھڑی کرنے، اس کے بارے میں شبہات کو ہوا دینے، پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور مقدمے قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے۔ اگر پی ٹی ایم نے قانون شکنی کی ہے تو ملک کے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی عدالت سے متعلقہ شخص کو سزا دلوائی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک منظم اور مقبول تحریک و تنظیم کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی حکمت عملی سے فاصلے اور ناراضی بڑھنے کا امکان ہے۔ پی ٹی ایم کی حمایت پر مقدمات قائم کرتے ہوئے غداری یا بغاوت کی دفعات شامل کرنے سے تو یہی قیاس ہوگا کی ملک کی حکومت اور دیگر ادارے صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ سیاسی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہے۔ ملک کے اداروں اور حکام کو اس کا اسی طور سے احترام کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ اس تنظیم سے وابستہ بعض لوگ جذبات میں اداروں کے خلاف اشتعال انگیزی کا ارتکاب کریں لیکن اس قسم کے وقتی جذباتی نعروں کی بنیاد پر ایک گروہ کے خلاف ملک دشمنی کا تاثر قائم کرنے سے کسی قومی مفاد کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی ان نوجوانوں کو جعلی طریقہ سے دبا کر کوئی خاص کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں اس قسم کا ہر ہتھکنڈا ناکام رہا ہے۔
بغاوت کا الزام لگا کر فاصلہ پیدا کرنا اور جائز تحریک کو دشمن کی آلہ کار کہنا، بداعتمادی کو فروغ دینے اور مفاہمت کا راستہ مسدود کرنے کا سبب بنے گا۔ حکومت اور اداروں کو پی ٹی ایم کو اجنبی اور ناپسندیدہ قرار دینے کی درپردہ پالیسی اختیار کرنے کی بجائے ا س تحریک کی قیادت کے ساتھ کھلے دل و دماغ کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ ملک سے محبت پر کسی ایک فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ اس ملک کے سب شہری محب وطن ہیں۔ قومی مفاد کی تشریح ملک کی پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ اور اس مفاد کے خلاف کام کرنے والوں سے قانون کے تحت کام کرنے والے ادارے عدالتوں کے تعاون سے نمٹنے کے مجاز ہیں۔
غداری اور ملک دشمنی کی غیر واضح اصطلاحات مہلک ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی حب الوطنی پر اجارہ داری قائم کرنے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ