قریب ایک سو برس قبل ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ ادیبوں کی پہلی کھیپ تیار ہوئی تو انگریزی ادب کے علاوہ فرانسیسی اور روسی ادب کا بھی چرچا ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ادبی جریدے ہمایوں نے مئی 1935ء میں روسی ادب نمبر اور ستمبر 1935ء میں فرانسیسی ادب نمبر شائع کیے۔ ان دونوں شماروں کی تدوین میں مولانا حامد علی خان کی معاونت سعادت حسن منٹو کر رہے تھے۔ اسی رجحان کو آگے بڑھتے ہوئے اپریل 1936ء میں ادبی رسالے ”عالمگیر“ نے بھی روسی ادب نمبر شائع کیا۔ یہ پرچہ بھی سعادت حسن منٹو نے مرتب کیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس اپریل 1936ء ہی میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی۔
اس تاریخی پس منظر سے واضح کرنا مقصود ہے کہ تمدنی اور ادبی رجحانات کی شیرازہ بندی میں منظم منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی۔ معاشرہ ایک ہی وقت میں مختلف راستوں سے گزرتا ایک بڑے دھارے میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ ان گنت چشمے جہاں تہاں سے گزرتے ایک نقطے پر پہنچ کر دریا بن جاتے ہیں۔ ہمارے عہد کے منفرد شاعر سعادت سعید نے کہا تھا، قطرے شبنم کے ستاروں جیسے / آبجو آبجو دریاؤں میں مل جائیں گے۔
روسی ادب کی بات چلی تو دیکھیے کہ ٹالسٹائی، دوستوئیفسکی، شیخوف اور گورکی سے پرے ہم نے کم ہی دیکھا۔ کسی نے بہت ہمت کی تو پشکن، گوگول اور ترگنیف کی خبر لایا۔ روسی ادب کی روایت ایسی مختصر نہیں۔ مثال کے طور پر آئیوان کرائیلوف کا نام ہمارے ہاں نہیں سنا گیا۔ 1769 میں پیدا ہونے والا یہ روسی ادیب جدید روسی ادب کا پیش رو تھا، مختصر حکایات لکھتا تھا اور سادہ لفظوں میں رمز و کنائے کا سمندر سمو دیتا تھا۔ آئیے اس کی حکایت پڑھتے ہیں۔ عنوان ہے ’ایک متجسس شخص‘ ۔
ایک متجسس آدمی سڑک پر چلا جا رہا تھا۔ ایک جاننے والا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ دعا سلام کے بعد دوست نے پوچھا کہ کدھر کے دھاوے ہیں؟ متجسس آدمی نے بڑے جوش سے بتایا کہ عجائب گھر سے آ رہا ہوں۔ آج حیوانات کا کمرہ دیکھا۔ سبحان اللہ! کیسی کیسی مخلوق خدا نے پیدا کی ہے۔ اس چھوٹے سے کمرے میں گھنٹوں گھومتا رہا۔ کہیں حنوط شدہ پرندے، کہیں تتلیاں، کہیں رینگنے والے جانور۔ طرح طرح کی مچھلیاں اور پھر رنگ رنگ کے بھنورے، کچھ تو ایسے چھوٹے کہ سوئی کے ناکے سے گزر جائیں۔ بھئی کیا علم کا خزانہ ہے۔ بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ تم تو جانتے ہو، میں تو ایسے ہی مشاہدات کی کھوج میں رہتا ہوں۔
اس پر دوست نے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ہاتھی کیسا لگا۔ گوشت کا پہاڑ معلوم ہوتا ہے نا؟ متجسس آدمی نے چونک کر کہا، کیا مطلب، کیا وہاں ہاتھی بھی ہے؟ ارے ہاں اس عجائب گھر کی شان ہی وہ ہاتھی ہے جو ایک بڑے تودے کی طرح سے سارے کمرے پر حاوی ہے؟ متجسس آدمی نے لجاجت سے کہا، بھیا، دیکھو کسی کو بتانا نہیں۔ دراصل میری نظر چوک گئی۔ ہاتھی تو میں نے دیکھا ہی نہیں۔
عزیزان من، کچھ ایسا ہی تجسس ہمارے اہل دانش اور اکابر صحافت میں بھی ملتا ہے۔ ان دنوں کچھ احباب عذر خواہی کر رہے ہیں کہ انہیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت ایسی پیش پا افتادہ تیاری کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ ہم نے تو مغل اعظم کی خطابت سے متاثر ہو کر ان پر یقین کیا، ان کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ قربان جائیے، ایسی ژرف نگاہی کے۔ کوئی صاحب ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کو بین الاقوامی سازش قرار دے رہے ہیں۔ کوئی شاہ محمود قریشی کے لتے لے رہا ہے کہ ان کے ایک بیان سے حصص کی قیمتیں ایسے گرتی ہیں جیسے اخلاق میں زوال آتا ہے۔ کسی کو گلا ہے کہ فلاں سیٹھ صاحب کی پھیلتی تعمیراتی سلطنت پر انگلی رکھ کے رئیل اسٹیٹ کی صنعت تباہ کر دی گئی۔ کوئی آٹوموبائل کی صنعت میں ڈیوٹی کا نوحہ لکھ رہا ہے۔ کسی کو اعتراض ہے کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں تبدیلی کر کے کاروبار میں مندی پیدا کر دی۔ کوئی احتساب کو قومی نجات کا صدری نسخہ بتا رہا ہے تو کسی کو فکر ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کسی موہوم ڈیل کے نتیجے میں لوٹ مار کی دولت بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
خبر ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر کچھ مشورے 4 اپریل کو ہوئے اور 11 اپریل کو ایک بار پھر اہل اختیار مل بیٹھے۔ ان صاحبان فکر سے ایک سوال ہے کہ کیا آپ نے 2017۔ 2018 کے قومی بجٹ پر ایک نظر ڈالی تھی؟ وہ کون سی مد تھی جس میں 600 ارب کا ابتدائی تخمینہ نظر ثانی کے بعد 900 ارب روپے کی خبر لایا۔ اور پھر مئی 2018 میں نئے بجٹ میں اخراجات کی وہی غیر پیداواری مد 1100 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ ضروری تبدیلیوں کے بعد یہ لائن آئٹم شاید 1600 ارب روپے کا ہندسہ عبور کر جائے۔ تو صاحب یہ اٹھارہویں ترمیم کی خلش کہیں اور پائی جاتی ہے۔ صدارتی نظام کے حق میں دلائل کی لین ڈوری بے سبب نہیں۔ جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے۔
1844 ء میں وفات پانے والے آئیوان کرائیلوف نے عالم بالا سے ہمیں ایک تازہ حکایت بھیجی ہے۔ ہمیں اس کے مفہوم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ امانت جان کر آپ کو سونپتے ہیں۔ سپردم بتو مایہ خویش را۔
دنیا کے کسی دور دراز علاقے میں ایک خوبصورت گاؤں تھا۔ ایک طرف پہاڑ آسمان کی خبر لاتے تھے دوسری طرف ٹھنڈے شفاف پانی کا دریا بہتا تھا۔ زمین زرخیز تھی۔ جہاں بیج گرایا جاتا، سبزے کی بہار دیکھنے میں آتی۔ گاؤں کے لوگ سادہ اور محبت کرنے والے تھے۔ پرکھوں کے بنائے اصول ضابطوں کی پابندی کرتے تھے۔ اس گاؤں میں پربت خان نامی ایک مہم جو شخص رہتا تھا۔ ہٹا کٹا، تاڑ جیسا ہاڑ، یہ بڑے بڑے ہاتھ پاؤں، خوش لباس بھی تھا۔ خوش اطور البتہ نہیں تھا۔
اس کی باڑ کاٹی، اس کی کھڑی فصل میں مویشی چھوڑ دیے، فلاں کے کھیت سے پانی کاٹ لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمہ وقت لڑائی جھگڑے پر آمادہ۔ پربت خان خود کو غیرتمند سمجھتا تھا، دوسرے اسے جھگڑالو کہتے تھے۔ گاؤں میں اصول تھا کہ سال کے مخصوص مہینوں میں مچھلیاں نہیں پکڑی جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ مچھلیاں پکڑنے کے لئے ایک خاص اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ مچھلیاں سارے گاؤں کی سانجھی دولت ہیں۔ میٹھے بہتے پانی کی تازہ مچھلیاں اس طرح پکڑی جائیں کہ یہ امانت آنے والی نسلوں کے لئے بھی محفوظ رہے بلکہ مزید پھلے پھولے۔ لیکن پربت خان کسی کی کب سنتا تھا۔ اجازت نامے کی اسے پروا نہیں تھی۔ ممنوعہ موسم کی ایک رات اس نے جال اٹھایا اور گاؤں سے نکل کر منہ اندھیرے دریا میں ڈال دیا۔ چاہتا تھا کہ بہت سی مچھلیاں ہاتھ آئیں۔ کچھ ہی دیر میں جال میں حرکت پیدا ہوئی۔ پربت خان نے خوش ہو کر جال باہر کھینچنا چاہا۔ جال میں ایسا بوجھ محسوس ہو رہا تھا کہ پربت خان کا دل جھوم اٹھا۔ سوچا کہ آج تو وارے نیارے ہو گئے۔
جوں توں جال کنارے تک آیا تو معلوم ہوا کہ جال میں عجیب الخلقت کیکڑے، ہشت پا، جہازی حجم کے کچھوے اور ایک مگرمچھ بھی مچل رہا ہے۔ پربت خان نے ماہی گیری کا منصوبہ بناتے وقت یہ سوچا ہی نہیں کہ اس دریا میں تو مگر مچھ بھی ہوتے ہیں۔ مچھلیاں پکڑنا تو ایک طرف رہا، پربت خان کو اپنے جال کی فکر ہونے لگی۔ چیخ چیخ کر گاؤں والوں کو پکارنے لگا کہ آؤ میرا جال بچاؤ۔ ابھی کچھ خبر نہیں کہ گاؤں والے اس کی مدد کو آئے ہیں یا نہیں؟ آئیوان کرائیلوف نے صرف یہ لکھا ہے کہ کمرے میں ہاتھی اور دریا میں مگرمچھ کی موجودگی سے خبردار رہنا چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ