(ہر اشاعتی ادارے کی ایک پالیسی ہوتی ہے اور کچھ خارجی تحدیدات بھی۔ ادارتی صفحے پر لکھنے والے کا ادارے سے معاہدہ ضرور ہوتا ہے لیکن کسی موقر ادارے میں کالم لکھنے والے کو ہدایت نامہ جاری نہیں کیا جاتا۔ لکھنے والا اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے۔ دوسری طرف ادارے کو استحقاق ہے کہ اگر کسی تحریر کو کسی بھی وجہ سے شائع نہ کرنا چاہے تو اسے روک لے۔ آخر لکھنے والا بھی تو ایک فرد ہی ہے اور کسی فرد کی رائے غلطی کے امکان سے خالی نہیں ہوتی۔ لکھنے کی آزادی اور اشاعت پر ادارتی نگرانی کی دو طرفہ حرکیات سے صحافت مرتب ہوتی ہے۔ لکھنے والے کی ذاتی تسکین کے لئے صحافتی ادارے کے ہزاروں کارکنوں کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ کوئی دس برس پرانی بات ہے۔ تب بھی سیاسی معاملات حسب معمول دگرگوں تھے۔ درویش کا ایک کالم روک لیا گیا۔ درویش نے برادرم سہیل وڑائچ کو فون کیا اور کسی شکوے کی بجائے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ـ ’بھائی میں نے پچھلے سو دو سو کالموں میں جو رطب و یابس لکھا، اسے بھی تو آپ ہی نے شائع کیا۔ اس مہربانی پر آپ کا شکر گزار ہوں‘۔ ذیل کا کالم پانچ نومبر کی صبح لکھا گیا تھا۔ متعلقہ ادارے نے اس کی اشاعت مناسب خیال نہیں کی۔ ہم اسے ’ہم سب‘ کے ذریعے آپ تک پہنچا دیتے ہیں۔)
(بھلا ہوا میری گاگر ٹوٹی)
’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘۔ یہ جملہ 4 نومبر کی شام اچانک میرے منہ سے نکلا۔ ٹیلی فون پر کراچی میں مقیم ایک شفیق بزرگ سے بات کر رہا تھا۔ غالباً ان کے سامنے ٹیلی ویژن سکرین روشن تھی ۔ اچانک انہوں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر کہا۔ ’سروسز چیفس کی مدت پانچ برس کر دی گئی ہے اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی تعدا د 34 کر دی گئی ہے‘۔ بھونچکا ہو کر پوچھا ’آپ کیا فرما رہے ہیں؟ ‘کہنے لگے۔ اپنا ٹیلی ویژن کھول کر تفصیل دیکھ لیجئے۔
تفصیل معلوم ہونے پر میرا فوری ردعمل بھٹو صاحب کا وہ جملہ تھا جو انہوں نے 26 مارچ 1971 کی صبح ڈھاکہ سے کراچی پہنچ کر ایئرپورٹ پر کہا تھا۔ بھٹو صاحب کا پاکستان واقعی بچ گیا تھا۔ قائداعظم کا پاکستان ختم ہو گیا تھا۔ قائداعظم کا پاکستان تو 24اکتوبر 1954 ہی کو ختم ہو گیا تھا جب غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی ۔ اس وقت کے وزیر تجارت ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے فضل الرحمن نے صحافیوں کو بتا دیا تھا کہ ’غلام محمد نے سکندر مرزا اور چوہدری محمد علی سے گٹھ جوڑ کر کے جنرل ایوب خان کی بندوق کے بل پر دستور ساز اسمبلی توڑ ی ہے۔ فوج میں بنگالی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب پاکستان نہیں بچ سکے گا‘۔ غلام محمد کے اس اقدام کا ایک پس منظر تھا۔غلام محمد نے 17 اپریل 1953کو خواجہ ناظم الدین کومعزول کیا تو سر ظفراللہ خان کی تحریک پر امریکا میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنایا۔ بوگرہ جانتے تھے کہ ان کی سیاسی حیثیت صفر ہے اور غلام محمد کسی بھی وقت انہیں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے سیکشن 10 کی مدد سے گھر بھیج سکتے ہیں۔ تب اس سیکشن دس کی حیثیت بعد کے آرٹیکل 58 دو (ب) کے مترادف تھی۔ غلام محمد ایبٹ آباد میں علالت کے باعث چھٹی پر تھے ۔ 22 ستمبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے اچانک محمد ہاشم گزدرکا پیش کیا گیا قانون منظور کر کے غلام محمد کا وہ اختیار ختم کر دیا جس کے تحت وہ وزیراعظم کو معزول کر سکتے تھے۔
تاہم غلام محمد کا مفلوج ہاتھ ایوب خان کے کندھے پر تھا اور ایوب خان کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ غلام محمد نے بوگرہ کو امریکا سے واپس بلا کر سب بل نکال دیے۔ تب کراچی میں امریکی قونصل جنرل کا نام گبسن تھا جو اکثر ایوب خان سے ملاقات کر کے امریکی حکومت کو باقاعدہ رپورٹ بھیجتا تھا۔ 13 فروری 1953 کو بھیجی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایوب خان نے گبسن سے کہا ۔
"If the Situation was critical, the Army would declare a military Government in order to secure stability for Pakistan. He stated the Pakistan Army would allow neither politicians nor the public to ruin the country.”
قبل ازیں 23 دسمبر 1952 کو ایوب خاں گبسن کو بتا چکے تھے ۔
"Pakistan Army will not allow the political leaders to get out of hand, and the same is true regarding the people of Pakistan.”
اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ جادوگر کی ٹوپی سے کبوتر کی طرح نکالے جانے والی قانون سازی دراصل اختیار کی پس پردہ کشمکش کا اشارہ ہوتی ہے اور اس کے نتائج مثبت نہیں ہوتے۔
آج اہل پاکستان کو بتایا جا رہا ہے کہ عسکری قیادت کی میعاد میں توسیع سے پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام حاصل ہو سکے گا۔ اس پر مجھے ستمبر 2016 میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے گفتگو یاد آئی جو راحیل شریف کی توسیع کے حامی تھے۔ عاجزانہ سوال کیا کہ کیوں؟ فرمایا۔ ’وہ بہت اچھے سپاہی ہیں‘۔ عرض کی کہ ’اچھے سپاہی ہیں تو اس عہدے تک پہنچے ہیں‘۔ کہنے لگے ’اس وقت پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے‘۔ ادب سے عرض کی کہ ’حضور ’تسلسل‘ کا جواز تو ہمیشہ موجود رہے گا۔ کیا ایسا کرنے سے اس منصب پر پہنچنے کے اہل دوسرے افسروں کی حق تلفی نہیں ہو گی‘۔ مذکورہ افسر وضع دار تھے۔ اس بے بال و پر کی ترزبانی پر خاموش ہو رہے۔
اعظم نذیر تارڑ صاحب نے طریقہ کار تو ہاشم گزدر ہی کا اپنایا ہے لیکن موافق سمت سے گاڑی چلانا چاہی ہے۔ دو اشارے عرض کرتا ہوں۔ پہلا یہ کہ جمہوریت اسمائے صفت کی متحمل نہیں ہوا کرتی۔ اگر سکندر مرزا کی کنٹرولڈ جمہوریت ، ایوب خان کی بنیادی جمہوریت اور ضیاالحق کی شورائی جمہوریت نہیں چل سکی تو قمر باجوہ صاحب کی ہائبرڈ جمہوریت بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گی۔ اقتدار اور اختیار کے لیے پرچھائیوں کا کھیل جاری رہے گا۔ دوسری عرض داشت یہ ہے کہ جس بندوبست میں جمہوری اختلاف کی گنجائش نہ ہو اور طاقت کے بل پر احکامات صادر کیے جائیں، وہاں اقتدار کی چوٹی پر بیٹھا شخص سب سے زیادہ بے خبر اور تنہا ہوتا ہے۔
گزشتہ برس 23 جون 2023 کو ہم نے ایس آئی ایف سی قائم کی تھی۔ اس سے آئی ایم ایف کا دروازہ تو کھل گیا ، یہ فرمائیے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کتنا اضافہ ہوا۔ ایک ہفتہ پہلے 29 اکتوبر کو اسلام آباد میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کی گفتگو آپ سن چکے ہیں۔ قومی اسمبلی نے جو قانون سازی کی ہے اس سے صرف یہ فائدہ ہو گا کہ قوم کو ہر تین برس بعد تقرری یا توسیع کی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس قانون سازی سے جمہوریت کے جسد ناتواں پر لگنے والے زخموں کا درمیانی وقفہ بڑھ جائے گا۔ سیاسی استحکام اس سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ معیشت پیداواری راستے پر گامزن نہیں ہو سکے گی۔ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب دیکھنے والوں کو نوید ہو کہ ہم تو پی آئی اے کی نجکاری بھی نہیں کر پا رہے۔ عنوان میں بھگت کبیر کے دوہے کا اشارہ دیا ہے ۔بھلا ہوا میری گاگر ٹوٹی/ میں تو پانی بھرن سے چھوٹی۔ محترم وزیراعظم اور دیگر حکومتی ارکان غالباً بھگت کبیر کے اس دوہے کی کیفیت میں ہیں۔ ہم بے دست و پا شہری مگر نوابزادہ نصراللہ خان کو یاد کر رہے ہیں۔ ضیاالحق نے ایک اتفاقی ملاقات میں خیریت دریافت کی تو نوابزادہ صاحب نے جواب میں کہا تھا:
ان کے عہد شباب میں جینا
جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے
(بشکریہ: ہم سب لاہور)
فیس بک کمینٹ