راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے دوسرے قائد (سنچالک) ایم ایس گولوالکر کی انیس سو انتالیس میں شایع ہونے والی کتاب ’’ہم اور ہماری قوم۔ایک تشریح‘‘ میں ہندوراشٹر (ہندو ریاست) کے خاکے کی بات کرتے ہوئے غیر ہندو طبقات کی حیثیت کے بارے میں جو کہا گیا اس پر حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ گولوالکر خود کو تاحیات پوری سچائی کے ساتھ ایڈولف ہٹلر کے خالص آریائی قومی نظریے کا پرستار کہتے رہے۔
’’ ہندوستان کے غیر ہندو طبقات یا تو ہندو ثقافت، زبان، عقیدہ اپنائیں اور غیر ملکی ثقافت و عقائد سے ناتا توڑیں یا پھر ہندو قوم کے زیرِ نگیں شہریت، حقوق اور خصوصی حیثیت کے بغیر دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہنا قبول کریں جب تک کہ ہندو قوم ان کے وجود کو گوارا کرتی رہے ‘‘۔
آر ایس ایس ، آریا سماج اور ہندو مہاسبھا کی مزید انتہا پسند نظریاتی وارث کے طور پر ستائیس ستمبر انیس سو پچیس کو وجود میں آئی۔چورانوے برس کے سیاسی و فرقہ وارانہ سفر کے دوران اس پر دوبار پابندی لگی۔
تحریکِ آزادی میں یہ کہہ کر حصہ نہیں لیا کہ انگریزکے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بھی زیادہ اہم اور اولین کام تمام ہندو جاتیوں کو ایک قوم کے دھاگے میں پرونا ہے۔ایسی آزادی کا کوئی مطلب نہیں جسے حاصل کرنے کے بعد ایک شدھ ہندو راشٹر (خالص ہندو ریاست) استھاپھت نہ ہو سکے۔
( جماعتِ اسلامی کا خالص مسلمان ریاست کا ابتدائی نظریہ بھی جناح کے تصورِ پاکستان کے مقابل کچھ ایسا ہی تھا جسے بعد میں بدلے ہوئے زمینی حقائق کی روشنی میں ری ڈیفائن کیا گیا۔جب کہ علماِ دیوبند کی جمیعت علمائے ہند کانگریس کے قوم پرست سیکولر نظریے کے زیادہ قریب تھی اور اب بھی ہے۔البتہ ان کے سرحد پار دیوبندی بھائی ایک سیکولر دشمن مذہبی ریاست کے داعی ہیں)۔
جب انیس سو سینتالیس میں بٹوارا ہوا تو ایک شدھ ہندو راشٹر کو پلیتوں (مسلمانوں)سے پاک کرنے کے لیے آر ایس ایس کے سنگھی انتہا پسندوں نے شمالی ہندوستان اور پھر جموں میں ہونے والے کئی قتلِ عام منظم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔تب سے بابری مسجد کے انہدام تک اور پھر گجرات کے قتلِ عام سے اڑیسہ میں مسیحی کمیونٹی کی بیخ کنی تک ، لو جہاد کے خلاف سنگھرش ، مذہب بدلنے والے ہندوؤں کی دوبارہ شدھی کے گھر واپسی پروگرام اور گؤ رکھشک گینگ منظم کرنے تک کون سا ایسا کام ہے جس میں آر ایس ایس کی کسی نہ کسی ذیلی تنظیم کا اعلانیہ یا پوشیدہ انفرادی و اجتماعی ہاتھ نہ رہا ہو۔
انیس سو پچیس سے اب تک ہیڈگوار ، ایم ایس گولوالکر، بالا صاحب دیورس ، راجندر سنگھ ، سدھرشن اور موہن بھاگوت سمیت چھ شخصیات آر ایس ایس کی سنچالک (قائد) بنیں مگر ہندوتوا کامطلب ایک خالص ہندو ریاست ہی رہا اور یہ کہ جو بھی ہندوستان کے جغرافیائی دائرے میں بستا ہے اس کا بھلے کوئی بھی عقیدہ ہو وہ ہندو ہی کہلائے گا۔اور اگر اس نے اپنی کسی علیحدہ شناخت پر اصرار کیا تو وہ غیر ملکی تصور ہوگا اور غیر ملکی کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ اسے ایک دن واپس جانا ہی ہوتا ہے۔
یہ نظریہ آر ایس ایس سے جڑی ہر تنظیم کے کارکنوں میں اتنا راسخ ہے کہ ان کی روزمرہ سوچ کا ایمان کی طرح نارمل جزو بن چکا ہے۔ گجرات قتلِ عام کے دو برس بعد دو ہزار چار میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کی کوریج کے لیے میرا وہاں بھی جانا ہوا۔احمد آباد میں بی جے پی کے صدر دفتر میں مقامی پارٹی قیادت سے بھی ملاقات ہوئی۔ایک بیرسٹر صاحب جو احمد آباد بار میں بی جے پی کے لیگل ونگ کے عہدیدار تھے ان کی گفتگو کا ایک ٹکڑا مجھے آج بھی یاد ہے۔
’’ دیکھیئے میاں جی ہمارا مسلم ورگ سے کوئی جھگڑا نہیں۔وہ ہمارے بھائی ہیں۔ہم لوگ سیکڑوں ورش سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔جھگڑا ہے توبس شناخت کا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ خود کو ہندو ورگ کا حصہ مانیں اور کہیں کہ ہم محمڈن ہندو ہیں۔ہم گنگا مئیا کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے مسلم بھائی دجلہ فرات کو نہیں بھولتے حالانکہ ان میں سے نوے پرتیشد لوگوں نے دجلہ و فرات کا صرف نام سنا ہے۔
ہم کہتے ہیں ہردوار ، وہ کہتے ہیں مکہ۔ہمارے جتنے بھی دیوی دیوتا اور دیومالائیں اور پستکیں(مقدس کتابیں) ہیں وہ سب اس زمین سے جڑی ہیں۔پر ہمارے مسلم اور کرسچن بھائیوں کا ایک بھی سمبل اور ایک بھی دھارمک گرو اس دھرتی کا نہیں۔پھر جب ہم انھیں بدیشی کہتے ہیں تو برا لگتا ہے۔پرنتو ہمارا سیدھا سیدھا ماننا ہے کہ اگر آپ خود کو اس دھرتی ماتا کے سپتر مانتے ہو تو پھر ہماری طرح کہو کہ ہاں بھارت ماتا کی جے ، ہاں ہندو راشٹرا کی جے۔اگر آپ چپ رہتے ہو تو آپ اس مٹی کے نہیں ہو۔آپ وفادار نہیں ہو ’’۔
مگر پچھلے ہفتے بھارت سے ایک خبر آئی جسے پاکستانی میڈیا نے تو زیادہ گھاس نہیں ڈالی لیکن مجھے یہ خبر ایسے محسوس ہوئی جیسے کوئی نظریاتی بم پھٹا ہو۔
آر ایس ایس کے موجودہ سنچالک موہن بھگوت نے دلی میں تنظیم کے زیرِ اہتمام ’’مستقبل کا بھارت‘‘کے موضوع پر ایک بڑے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اگر وہ (مسلمان )کہتے ہیں کہ ہمیں ہندو نہیں بھارتی کہو تو ہم اس کا احترام کریں گے۔جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں چاہئیں اس دن ہندوتوا کا بنیادی نظریہ بھی ختم ہو جائے گا۔کیونکہ ہندوتوا کا تو بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے۔ہمارا پہلا کام ہندو معاشرے کو متحد کرنا ہے۔پہلے ہم ان لوگوں کو منظم کریں گے جو خود کو ہندو مانتے ہیں۔ہمارا مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ آر ایس ایس آئین سمیت تمام قومی علامتوں کا احترام کرتی ہے۔ہم تحریکِ آزادی میں کانگریس کے یوگدان ( کردار ) کی بھی سراہنا کرتے ہیں۔
موہن بھاگوت کے بقول جب سرسید احمد خان بیرسٹر بنے تو ہندو مہاسبھا نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ سرسید نے کہا ’’مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ نے ہمیں اپنوں میں شمار نہیں کیا۔ کیا ہم بھارت ماتا کے لعل نہیں۔ ہماری عبادت کا طریقہ مختلف ہے مگر اور کیا بدلا؟
اس سیمینار میں غیر ملکی سفیر بھی مدعو تھے۔کیا موہن بھگوت چند ماہ بعد لوک سبھا چناؤ کے دوران آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیم بی جے پی کی ایک اعتدال پسند اور فراخدلانہ تصویر بنانا چاہ رہے ہیں تاکہ خوف زدہ غیر ہندو اقلیتوں کے لیے بی جے پی کو قابلِ قبول بنایا جا سکے؟ اگر یہ کوئی نظریاتی یو ٹرن ہے تو کیا آر ایس ایس چورانوے برس تک جس ہندو نظریے کا پرچار کرتی رہی اس سے اعلانیہ لا تعلقی اختیار کرے گی؟
کیا آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کو موہن بھاگوت کی تقریر کی شکل میں ازسرنو مرتب کیا جائے گا؟ کیا آر ایس ایس کی سوا لاکھ ملک گیر شاکھاؤں کو کہا جائے گا کہ نئی نظریاتی لائن یہ ہے ؟ کیا پوری آر ایس ایس اور ذیلی تنظیمیں بھی اس یوٹرن کے پیچھے ہیں یا اسے موہن بھاگوت کے زاتی خیالات سمجھتی ہیں ؟
کیا آر ایس ان اندیشوں کو مسترد کرے گی کہ بی جے پی نے اگلے چناؤ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تو پھر سیکولر آئینی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کر کے اسے مذہبی بنیاد پر لکھا جائے گا۔اگلے چند ماہ میں کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں اور آئندہ موسمِ گرما میں عام انتخابات بھی ہوں گے۔ ٹکٹوں کی تقسیم اور اقلیتوں کے خلاف تشدد میں کمی بیشی سے ابتدائی اندازہ ہو جائے گا کہ آر ایس ایس کی بلی پرانے نظریاتی تھیلے سے کس قدر باہر آئی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ