کچھ ممالک اور ان کے رہنما ایک عجب مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی بات بات پر ریفرنڈم اور انتخابات کی جانب بھاگنے کا مرض۔ سوئٹزر لینڈ کا تو یہ حال ہے کہ اگر چند لاکھ لوگ اس یاد داشت پر بھی دستخط کر دیں کہ انہیں چھینک لینے کے لیے اوپر کے بجائے نیچے دیکھنے کا اختیار چاہیے تو اس پر بھی ریفرنڈم ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون کو نہ آئین نے مجبور کیا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ نے کہ وہ یورپی یونین میں رہنے یا نکلنے کے سوال پر ریفرنڈم کروائیں۔ مگر بھولے ڈیوڈ نے چونکہ انتخابی مہم کے دوران جیتنے کے حربے کے طور پر بریگزٹ کے بارے میں عوامی رائے لینے کا وعدہ کر لیا تھا۔ کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ میاں ڈیوڈ ایسے سیاستیں نہیں ہوتیں۔ ایک انتخابی وعدے کی اوقات ہی کیا ہے۔ وعدے قرآن و حدیث تھوڑا ہیں۔ مگر نہیں صاحب بریگزٹ کروا کے ہی دم لیا اور اب آدھے برطانوی رو رہے ہیں۔
اور یہ سپین میں کیا ہو رہا ہے؟ کاتالونیا میں ملک سے علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد چھتر پھیرنے کا کیا فائدہ؟ ان سے پہلے ہی سختی سے نمٹنا چاہیے تھا۔ لیکن اب بھی وقت ہے۔ سری لنکا، بھارت، پاکستان، ترکی، اسرائیل یا روس وغیرہ کی مشاورت و چھترولی مہارت کاتالونیا کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض اوقات ڈاکٹر بدلنے سے بھی افاقہ ہو جاتا ہے۔
سب سے زیادہ ہنسی جاپان پر آتی ہے۔ کوئی ان بے وقوفوں کو بتانے والا نہیں کہ انتخابی عمل ٹشو پیپر نہیں ہوتا کہ جب چاہا استعمال کر لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانیوں نے چلتی لڑائی میں سات اور جنگِ عظیم کے خاتمے سے اب تک 35 وزیرِ اعظم بدلے۔ ان میں سے موجودہ وزیرِ اعظم شنزو آبے سمیت بس پانچ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی مدتِ اقتدار مکمل کی۔ لگتا ہے جاپانی زبان میں یہ جملہ ہے ہی نہیں ’مجھے کیوں نکالا‘۔
حالانکہ 11 سابق جاپانی وزرائےاعظم آج بھی زندہ ہیں۔ ملک آج بھی تیسری بڑی اقتصادی سپر پاور ہے۔ پر شوقِ انتخابات بچپنے کی حد تک جواں ہے۔اب پچھلے سات برس سے اچھے بھلے حکومت چلانے والے شنزو آبے کو اچانک تیسری بار درمیانی مدت کے انتخابات جیتنے کا شوق چرایا ہے اور بہانہ یہ تراشا کہ شمالی کوریا سے لاحق حظرے سے نمٹنے کے لیے نیا مینڈیٹ لینا ضروری ہے۔
ہاں بھئی یہ مٹھی بھر ممالک ایسی پیٹ بھرے کی عیاشیاں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں انتخابات کے ساتھ صاف و شفاف کا لاحقہ لگانے کا رواج نہیں۔ یہ فقرے بھی سننے کو نہیں ملتے کہ حکومت خیرات میں نہیں عوام کے ووٹوں سے ملی ہے لہذا ہر حال میں مدتِ اقتدار پوری کرے گی۔ ان پیٹ بھرے جمہوری ممالک میں استعفیٰ بھی بہانے بہانے دیا جاتا ہے، لیا نہیں جاتا کیونکہ اہلِ سیاست کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگلی بار اقتدار کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا بھی کہ نہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں حکومتیں بالک ہٹ پر اڑنے کے بجائے خود ہی ہٹ جاتی ہیں ہٹائی نہیں جاتیں۔
یقیناً ان مٹھی بھر جمہوری ممالک میں بھی جوڑ توڑ، مار کٹائی اور سازشیں ہوتی ہیں مگر پارلیمنٹ کے اندر ہی اندر۔ ان کی ڈکشنریوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح ہے مگر مراد بادشاہ گر ٹولہ نہیں بلکہ ماتحت بیورو کریسی ہے۔ان کے ہاں بھی فوج ہے مگر عام آدمی اپنے انتخابی حلقے سے ہارنے یا جیتنے والے کا تو نام جانتا ہے فوج کے سربراہ کا نام نہیں جانتا۔ ان کے ہاں بھی اعلیٰ عدالتیں اور اعلیٰ جج ہیں مگر صرف وکیل برادری ہی ان کے ناموں سے واقف ہوتی ہے۔ اسی لیے ان ممالک کا میڈیا انتہائی بور اور تھکا ہوا ہے۔
ایسے بے نمک ماحول میں شنزو آبے کی جگہ شیدا مکینک بھی ہوتا تو مڈٹرم الیکشن جیت لیتا۔ پر یہ کیسی ابلی ہوئی جمہوریت ہے؟ نہ دھرنا، نہ سازش، نہ عدالتی کارروائیوں کی پل پل مصالحے دار خبریں، نہ ایک دوسرے کے طفلی، خاندانی، اخلاقی راز اور لغتِ دشنام بھرے بازار میں کھولنا۔۔۔نہ طلال، نہ فواد، نہ نثار، نہ آئی ایس پی آر، نہ اپنے اپنے آئینی دائرے یا ریاستی رٹ کی بحث، نہ اپنی یا غیر ایجنسیوں کی کارستانیوں کا تذکرہ۔ حتیٰ کہ ‘ایک صفحے پر ہونے’ کی اصطلاح تک نہیں۔ تو پھر لوکی کی جمہوریت؟ بے ذائقہ، بے رنگ، بے بو ۔۔۔
ایسی جمہوریت تو ہمارے ہاں ہر قبرستان میں ہوتی ہے۔ تف ہے۔۔۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ