کامریڈ سٹالن کا زمانہ تھاکہ کمیونسٹ پارٹی کی ایک کانفرنس ماسکو میں منعقد ہوئی، سٹالن بھی اس میں شریک تھا، کانفرنس کے اختتام پر تمام لوگ اپنی نشستوں سے اٹھے اور زوردار تالیاں بجا کر سٹالن کو خراج تحسین پیش کرنے لگے ، مسلسل دس منٹ تک تالیاں بجتی رہیں، کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ تالیاں روکنے میں پہل کرے، بالآخر کاغذ بنانے والی ایک فیکٹری کے مالک کو خیال آیا کہ بہت ہوگیا اب بیٹھ جانا چاہیے، اس کی دیکھا دیکھی تالیوں کا زور تھما اور باقی لوگ بھی بیٹھ گئے۔ کانفرنس کے بعد اسی شام فیکٹری کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے کسی جعلی مقدمے میں دس سال قید سزا کر جیل بھیج دیا گیا، تفتیش کے دوران اس غریب سے نہ صرف اعتراف جرم کروایا گیا بلکہ ایک کاغذ پر دستخط بھی لیے گئے جس میں اس نے اپنا’’گناہ‘‘ قبول کیا، اس سارے عمل کے بعد تفتیشی افسر نے اسے ایک ہی بات کہی کہ ’’کسی کو بھی تالیاں ختم کرنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے!‘‘ یہ واقعہ نوبل انعام یافتہ لکھاری الیگزنڈر سولینتسن (Aleksandr Solzhenitsyn) نے اپنی تاریخی کتاب The Gulag Archipelago میں لکھا ہے۔ یہ کتاب سٹالن کے زمانے میں بولشویک انقلاب کے بعد سے لے کر1950تک ان لاکھوں لوگوں کی داستان ہے جنہیں کمیونزم کی مخالفت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ سولینتسن نے یہ کتاب آٹھ برس جیل میں گزارنے کے بعد 1958میں لکھنی شروع کی، جیل کی سزا اسے محض ایک دوست کو خط لکھنے پر ہوئی تھی جس میں سولینتسن نے نہایت محتاط انداز میں سٹالن پر تنقید کی تھی(اس زمانے کی ملفوف ٹویٹ سمجھ لیں)، اس خط کو سوویت مخالف پروپیگنڈا کہہ کر سزا سنا دی گئی، کوئی مقدمہ چلا نہ کوئی اپیل کا حق دیا گیا۔ سو یہ کتاب اس زمانے کی یادداشتوں، نوٹس، رپورٹس، مختلف خطوط اور 227ایسے افراد کی رودداد پر مشتمل ہے جو سٹالن کے دور میں اس کی بربریت کا شکار ہوئے تھے ۔ خونی انقلاب کے ہر خواہش مند کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور انہیں بھی یہ کتاب سرہانے رکھ کر سونا چاہیے جو اپنے نظریے کی حمایت میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں مخالف نقطہ نظر رکھنے والا ہر شخص ملک دشمن لگتا ہے۔
سولینتسن لکھتا ہے کہ اکتوبر انقلاب کے پہلے ماہ ہی لینن نے ریڈ آرمی، پولیس اور عدالتوں کو حکم دیا کہ وہ ملک میں سخت ڈسپلن نافذ کریں اور جو کوئی بھی معمولی سی خلاف ورزی کرے اس سے سزا کے طور پر جبری مشقت کروائی جائے۔ 1918تک لینن ایسے لیبر کیمپس کی بنیاد ڈال چکا تھا جہاں ہر ’’مشکوک‘‘ کو بھیج دیا جاتا تاکہ ’’سوویت ریپبلک کو اس کے طبقاتی دشمنوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔‘‘ 1930تک ایسے کیمپوں میں قید افراد کی تعداد پچاس ہزار تھی۔ شروع شروع میں اس کا مقصد کمیونسٹ معاشرے کو مشکوک افراد سے پاک رکھنا تھا، تاہم بعد میں ان لوگوں کو غلام بنا کر ان سے بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کروایا گیا جیسے کہ بحرابیض۔ بالٹک کنال جو بغیر کسی جدید مشینری کے 1933میں مکمل ہوا، سولینتسن کے مطابق اس منصوبے کی تعمیر میں اڑھائی لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انقلاب سے پہلے خود سٹالن کو بھی اپنے’’باغیانہ خیالات‘‘ کی وجہ سے جیل کاٹ چکا تھا مگر وہ جیل ایسی نہیں تھی جو بعد میں سٹالن نے اپنے مخالفوں کے لیے بنائی۔ سٹالن کازارِ روس کے زمانے سے موازنہ کرتے ہوئے سولینتسن لکھتا ہے کہ بجائے اس کے کہ کمیونزم لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں لاتا الٹا اس نظام میں مزدور اور غریب کسان مزید پس گئے، زار کے زمانے میں مزدور صبح سے شام تک کام کرتے تھے، اتوار اور دیگر تعطیلات انہیں ملتی تھیں، کبھی کوئی بھوک سے نہیں مرتا تھا اور سنگین جرم میں پھانسی کی سزا پانے والوں کی اوسط ایک سال میں سترہ تھی، جبکہ بولشویک انقلاب کے سولہ ماہ میں سولہ ہزار افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا، سن 37-38میں پانچ لاکھ افراد کو سیاسی قیدی بنا کر قتل کیا گیا جبکہ مزید پانچ لاکھ کو ’’عادی چور‘‘ کہہ کر مار دیا گیا۔
دنیا کی ہر حکومت کی طر ح آمریتیں، استبدادی اور فاشسٹ حکومتیں بھی قانون کی آڑ میں ہی تمام ظلم کرتی ہیں، ان حکومتوں میں گسٹاپو جیسی تنظیمیں بنائی جاتی ہیں، معمولی سا مخالف نقطہ نظر بھی’’قانون‘‘ کی نظر میں جرم ٹھہرتا ہے، سولینتسن مثال دیتا ہے کہ 1926 کاقانون فوجداری اس بات کی اجازت دیتا تھا کہ کسی بھی قسم کی رائے یا عمل کو سوویت ریاست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دے کر سزا دی جاسکتی ہے، بےشمار طلبا کو محض اس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے امریکی ترقی یا جمہوریت کی تعریف کیوں کی؟ کسی بھی گرفتاری کے بعد مقصد یہ تلاش کرنا نہیں ہوتا تھا کہ ملزم نے جرم کیا ہے یا نہیں، مقصد صرف یہ ہوتا تھا اسے ذہنی و جسمانی طور پر اتنا تھکا دیا جائےکہ کوئی جرم ثابت کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے اور وہ شخص کسی بھی قیمت پر اپنی یہ بدبختی ختم کرنے پر راضی ہو جائے، 1938تک قانون میں ضروری تھا کہ اعترافی بیان حاصل کرنے کیلئے جو تشدد کیا جائے اس کی کاغذی کارروائی مکمل رکھی جائے مگر پھر یہ تکلف بھی ختم کر دیا گیا اور تفتیشی افسران کو لامحدود اختیارات مل گئے، ملزمان سے اعترافی بیان لینا معمول بن گیا، وہ افسران کامیاب سمجھے جاتے جو اعترافی بیان آسانی سے حاصل کر لیتے، ان کا نعرہ تھا’’ہمیں بندہ دو، کیس ہم خود بنا لیں گے‘‘، بدلے میں انہیں اچھی تنخواہ اور ترقیاں ملتیں، سولینتسن سوال اٹھاتا ہے کہ ایسے میں کیا کوئی تفتیشی افسر کسی ملزم پر رحم کھا سکتا تھا جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہو؟
آخر میں سولینتسن لکھتا ہے کہ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد شاید لوگ کہیں کہ ہاں بہت برا ہوا مگر آج کے دور میں یہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں، ایسا نہیں ہے ، وہ کہتا ہے کہ بیسویں صدی کا یہ شر زمین پر کہیں بھی پیدا ہوسکتا ہے ، اوسط درجے کے لوگوں کے ہاتھ میں جب لامحدود طاقت آجائے تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں اور اکثر یہ ان حکومتوں میں ہوتا ہے جو آزاد فکر کو برداشت نہیں کرتیں۔ سولینتسن کے ساتھ روس نے وہی کیا جو ایسے لکھاریوں کے ساتھ ایسی حکومتیں کرتی ہیں، 1970میں جب اسے نوبل انعام دیا گیا تو وہ اس ڈر سے یہ اعزاز وصول کرنے نہیں گیا کہ بعد میں اسے روس میں واپس نہیں آنے دیا جائے گا، 1974میں اسے گرفتار کیا گیا، کے جی بی نے تفتیش کی اور اس پر غداری کا مقدمہ بنایا، اسے جلاوطن کرکے جرمنی بھیج دیا گیا، 1995میں اس کی روس واپسی ہوئی اور بالآخر 2008میں موسکو میں انتقال ہوا۔
کالم کی دم:الیگزینڈر سولینتسن کا شکریہ جس کی کتاب کی بدولت میں یہ کالم لکھ سکا ورنہ آج تو ذہن کسی نودولتیے کی طرح بنجر تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ