یہ 2014کی بات ہے ، میں امریکی ریاست ہوائی میں ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے موجود تھا ، امریکی معاشرے اور طرز زندگی کے بارے میں گفتگو جاری تھی ، دوران گفتگو ایک پاکستانی نژاد امریکی نے کہا کہ یہاں اہم قانون سازی یہودی لابی کے مفادات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ ابھی اُس کی بات ٹھیک طرح مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک شخص اٹھا اور اُس نے کہا کہ یہ الفاظ یہودیوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہیں فوراً واپس لیے جائیں ۔ اِس پر پہلے شخص نے سوال کیا کہ کیا تم یہودی لابی کا انکار کر سکتے ہو، کیا واشنگٹن میں یہودی لابی موجود نہیں ؟جواب میں دوسرا شخص بولا کہ زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہوکہ وہ اسرائیلی لابی ہے ، یہود ی لابی کہنا درست نہیں،یہ بات مذہبی تعصب ظاہر کرتی ہے ۔ سیمینار کے اختتا م پر اُس پاکستانی نے یہودی سے مصافحہ کیا اور معافی مانگی۔بظاہر یہ ایک چھوٹا ساواقعہ تھا مگر اِس سے ایک بات ثابت ہو ئی کہ امریکہ میں کوئی معمولی بات بھی یہودیوں کی دل شکنی کا سبب بن سکتی ہے لہذا محتاط رہا جائے ۔ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ استدلال کریں کہ ایک واقعے سے عمومی نتائج اخذ کرنا دانشمندی نہیں تو اُن کی خدمت میں ایک اور مثال پیش ہے۔امریکہ کی ستائیس ریاستوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی کمپنیوں ، افراد یا اداروں کے خلاف سزا کا قانون موجود ہے ،یہ قوانین جن ریاستوں میں لاگو ہیں وہ امریکہ کی کُل آبادی کا پچھتر فیصد ہے ۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف قراردادیں پاس کر چکے ہیں ۔بندہ پوچھے کہ بائیکاٹ کرنے سے زیاد ہ بہتر احتجاج بھلا کیا ہو سکتا ہے ، یہ قانونی بھی ہے او ر غیر متشدد بھی ، مگر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف امریکہ میں اِس کی بھی اجازت نہیں ۔
امریکہ کو چھوڑ کر اب یورپ آتے ہیں ۔گزشتہ ہفتے فرانس نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کی ملک بھر میں سرکاری عمارات پر نمایش کی، فرانسیسی حکومت نے یہ اقدام تاریخ کے استاد سیمیول پیٹی کی یاد میں کیا جسے ایک مسلمان نوجوان نے چند روز قبل اپنی جماعت میں طلبا کو گستاخانہ خاکے دکھانے پر قتل کر دیا تھا ۔فرانسیسی حکومت ، ریاست اور معاشرہ اپنی سیکولر شناخت کے حوالے سے بہت حساس ہے ، فرانس یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے عوامی مقامات پر حجاب اوڑھنے پر پابندی عائد کی اور آزادی اظہارکے حوالے سے بھی فرانس کا موقف یہی ہے کہ اِس پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہیے ، مذہبی تو بالکل بھی نہیں ۔بظاہر یہ باتیں بہت ’ٹھوس ‘ لگتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں اور آزاد ی اظہار کی حدود کی بحث میں فرانس کا مقدمہ بودہ اور کمزور ہے ۔خود یورپی عدالت برائے انسانی حقوق 2018میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ رسول اللہ کو (معاذ اللہ ) بدنام کرنے کی کوشش کرنا ”goes
beyond the permissible limits of an objective debate۔ “یہ مقدمہ پہلے ویانا کی علاقائی فوجداری عدالت میں چلا جہاں آسٹریا کی ایک عورت کو اسی جرم میں سزا سنائی گئی ، اس عورت نے سزا کے خلاف یہ کہہ کر اپیل کی کہ وہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق 10،جو آزادی اظہار سے متعلق ہے ،کے تحت اپنے خیالات کے اظہار میں آزاد ہے ، مگر یورپی یونین کی سات رکنی عدالت نے اُس عورت کا موقف مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ ”“that by considering the impugned statements as going beyond the permissible limits of an objective debate and classifying them as an abusive attack on the Prophet of Islam, which could stir up prejudice and put at risk religious peace, the domestic courts put forward relevant and sufficient reasons.”
آزادی اظہار کی حدود سے متعلق یہ یورپ کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ ہے ، اصولاً تو اسی فیصلے کی روشنی میں فرانس کا سارا مقدمہ زمین بوس ہو جاتا ہے ، مگر فرانسیسی اپنے تئیں چونکہ آزادی اظہار کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں تو ہم اُن کے موقف کی مزید پڑتال کرلیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اِن گستاخانہ خاکوں کی نمایش سے فرانس نے کون سا اعلی و ارفع مقصد حاصل کیا ؟ اگر اِس نمایش کا مقصد ایک ارب نوّے کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری اور دنیا کے امن کو نقصان پہنچانا تھا تو یہ مقصد یقینا پورا ہو گیا۔ اگر فرانس کی دلیل یہ ہے کہ اِس نمایش سے اُس نے قتل ہونے والے فرانسیسی استاد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے تو یہ دلیل ناقص ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اُس شخص کے تمام خیالات کونہ صرف جپھی ڈال لیں بلکہ اُس کی تشہیر بھی کریں۔ مثلاً اگرکسی لکھاری پر پابندی لگتی ہے تو اُس پابندی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ضروری نہیں کہ پہلے میں اُس لکھاری کے تمام خیالات کو اپناؤ ں اور پھر احتجاج کروں۔اور اگر فرانس کی دلیل یہ ہے کہ اُ س نے اپنے سیکولر تشخص محفوظ بنانے کی غرض یہ سب کچھ کیا ہے تو یہ بات بھی نہیں بنتی کیونکہ سیکولر ازم کی کوئی بھی تعریف کر لی جائے اُس میں بہرحال کسی مذہب یا پیغمبر کے گستاخانہ انداز میں خاکے بنا کر پورے ملک میں نمایش کرنا شامل نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح فرانس کے کتب خانوں میں اسلام سے متعلق ہزاروں لاکھوں کتابیں موجود ہوں گی جن میں اسلام پر تحقیق و تنقید کی گئی ہو گی مگر کوئی بھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اِن کتابوں کو جلا دیا جائے یاوہاں موجود لائبریرین کاسر قلم کر دیا جائے ، مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب آزادی اظہار کے نام پر ہمارے پیغمبر ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں اور پھر یہ توقع کی جاتی ہے کہ مسلمان کوئی رد عمل بھی نہیں دیں گے کیونکہ اگر انہوں نے رد عمل دیا تو وہ اسلامی دہشت گردی کہلائے گی۔ردعمل دینے کا حق صرف امریکہ ، اسرائیل اور یورپ کوہے ، یہ جب چاہیں اپنے مفادات کے نام پر، اپنی مغربی اقدار کی آڑ میں یا اپنی سیکورٹی کو بنیاد بناکر کسی بھی مسلمان ملک پر حملہ
کرسکتے ہیں ،بمبار ی کرکے لاکھوں شہریوں کو قتل کر سکتے ہیں ،غریب ممالک کو محکوم رکھ کر اپنی کالونیاں بنا سکتے ہیں ، مگر انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا کیونکہ یہ ’مہذب ‘ ممالک ہیں۔اِن نام نہاد مہذب ممالک نے یہ بھی طے کر دیا ہے کہ آزادی اظہار کی حدود تمہارے پیغمبر ﷺ کی گستاخی کرنے سے شروع ہوتی ہیں اور اسرائیل کے بائیکاٹ پر اکسانے پر ختم ہو جاتی ہیں ۔اِس دہرے میعار کو ذہن میں رکھا جائے تو اِن گستاخانہ خاکوں کی نمایش کا مطلب بھی سمجھ میں آ جائے گا ، اظہار رائے کی آزادی سے زیادہ دراصل یہ نمایش اِس بدمعاشی کا اظہار ہے کہ ہم جو چاہیں گے کریں گے ، ہماری اقداراور ہمارا سیکولر ازم اہم ہے، تمہارے مذہب ، تمہارے جذبات ، تمہارے عقائد کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
ایک طرف اسرائیل ہے ، دو بالشت کا ملک ، جس نے امریکہ تک کو نکیل ڈال کر رکھی ہے ، دوسر ی طرف ایک ارب نوّے کروڑ مسلمان ہیں جو مل کر بھی فرانس کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے پیغمبرﷺ کے خلاف خاکوں کی نمایش کرنے پر کم سے کم معافی ہی مانگ لے۔اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں ، وجہ سمجھ میں آ جائے گی ۔جس قوم کے لوگ امریکہ اور یورپ کی شہریت ملنے پر یہ ’سٹیٹس ‘ لگاتے ہوں کہ ’الحمد اللہ ،گاٹ امریکن نیشنیلٹی ‘ وہ قوم طاقتور سے معافی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
( گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم )
فیس بک کمینٹ