آج مرزا نوشہ کو دنیا سے رخصت ہوئے 148 برس ہو گئے وہ بلاشبہ زمانوں کے شاعر ہیں جیسے لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لاہور، لاہور ہے اسی طرح غالب بس غالب ہے اور جس نے غالب نہیں پڑھا اس نے شاعری کو نہیں پڑھا
رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں ” مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ
سلطنت نے کیا دیا، تو میں بے تکلف یہ تین نام لوں گا غالب، اردو اور تاج محل۔“ ہمارے ایک دوست وسیم احمد جب کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ان دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی پروفیسر نے سب طالب علموں کو غالب کی شخصیت کی عکاسی ایک سطر میں کرنے کو کہا تو انہوں نے لکھا "غالب صدی کا شاعر ہے” پروفیسر صاحبہ نے کلاس کے سب طالب علموں میں سے وسیم صاحب کے بیان کی تعریف کی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ وسیم کا بیان بھی غالب کی شخصیت کو محدود کر دیتا ہے میں تو یوں کہوں گی کہ” غالب ہر صدی کا شاعر ہے” اور یہ حقیقت ہے کہ غالب ہر زمانے، ہر صدی، ہر لہجے اور ہر عمر کا شاعر ہے۔ میری بیٹی فاطمہ جس کی عمر تیرہ برس ہے جس کی اردو بہت بہتر نہیں ہے ہمارے چچا غالب اس کے بھی پسندیدہ شاعر ہیں اور وہ اکثر دیوان غالب کی ورق گردانی کرتی نظر آتی ہے اور تو اور لیپ ٹاپ پر مرزا غالب کی غزلیں بھی سنتے پائی گئی ہے اور ایسا دو تین برس سے ہو رہا ہے جب وہ صرف دس برس کی تھی اگر غالب کی وفات کے ایک سو اڑتالیس برس بعد بھی انگریزی سکولوں کی پروردہ ایک دس سالہ بچی غالب کی دیوانی ہو سکتی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے. غالب کی عظمت کے متعدد پہلو ابھی بھی ایسے ہیں جن پر اب تک پوری توجہ نہیں دی گئی مثلاً ان کا اردو کلام بہت پڑھا گیا لیکن فارسی کلام کا مطالعہ اس پیمانے پر نہیں کیا گیا. دوسرا ان کی اردو غزلوں کے برابر ان کے اردو قصائد پر بہت کم توجہ دی گئی. مرزا اسد اللہ خان اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے انداز و بیان میں خاص تغیر پیدا کر کے اردو کی نشو وبلوغ کے وسیع ممکنات مہیا کر دیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو شاعری نے جو ترقی کی اس کی بنیاد غالب نے ہی فراہم کر دی تھی. انہوں نے خود اپنے کلام کا انتخاب کیا ایک رام پور میں اور ایک کولکتہ میں، دونوں میں ابتدائی دور کا کلام ہے. غالب کو دہلی سے بہت محبت تھی، شاہان مغلیہ کا راج کیا گیا دہلی ہی اجڑ گئی اور یہی صدمہ ہمیں ان کے آخری دور کی شاعری میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے. پیدا تو وہ تاج محل کے شہر آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء کو ہوئے جب مغلیہ اقتدار کا کروفر رخصت ہو رہا تھا. 10 اگست 1810ء کو وہ ایک سے دو ہو گئے اور یہ بندھن ان کی زندگی میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ 1813ء میں وہ دہلی آ بسے یہیں 15 فروری 1869ء میں ان کا انتقال ہوا. اگر ہم محاسن کلام غالب کا جوہر نکالیں تو یہ عناصر نمایاں نظر آئیں گے، انسانی فطرت کی نباضی اور حقیقت پسندی کی خُو جو روایتی عشق کے منافی تھی. غالب کا شمار ان چند ہستیوں میں کیا جا سکتا ہے جن کی شخصیت ان کے کردار سے ماورا رہی. ویسے تو مرزا کا ہر شعر ہی ایسا ہے کہ گویا دل میں ہے لیکن ایک دن فاطمہ کی فرمائش پر یہ شعر بےساختہ زباں پر آ گیا
اور آخر میں غالب کے لیے غالب کے ہی الفاظ میں
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
فیس بک کمینٹ