وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو موقع ملا ہے، وہ اپنے وسیب کے دیگر مسائل کے ساتھ سرائیکی زبان و ادب کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں، کسی بھی خطے کا ادب، خطے میں بسنے والے افراد کی تہذیب، ثقافت اور وہاں کی اثری تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے، سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ غلام فرید کوریجہ کا دیوان ایک شاہکار کتاب ہے جو اپنے وقت کی تاریخ بھی ہے اور ادبی تاریخ کا حوالہ بھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو میانوالی کے سرائیکی ادب کے مطالعے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے ان کا ادب کی طرف رحجان کم ہے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق تونسہ کی دھرتی سے ہے، تونسہ بحوالہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی اور پیران عظام کوٹ مٹھن کی روحانی نسبت بہت قدیم ہے، ان کو مطالعہ کرنا چاہئے کہ انسان عہدوں سے نہیں سوچ سے بڑا ہوتا ہے، کتنے دکھ کی بات ہے کسی حکومتی ادارے کو کلام فرید کی اشاعت کا شرف حاصل نہیں ہوا، حالانکہ محکمہ اوقاف حکومت پنجاب کے پاس مزار فرید کی ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی اور اربوں روپے مالیت کی دکانیں اور مکانات و دیگر املاک ہیں۔ 1944ء میں نواب سرصادق محمد خان نے دیوان فرید معہ ترجمہ و شرح ڈیلکس ایڈیشن کی اشاعت کی ، ان کے اس کام کو آج تک یاد رکھا جا رہا ہے، کیا عثمان بزدار یا دوسرے حکومتی عمائدین اس طرف توجہ دیں گے؟ اس سوال کے ساتھ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ایک تاریخ ہوتی ہے ، دوسری سرکاری تاریخ آج کی سرکاری تاریخ میں ان کا ذکر ہے جنہوں نے انگریزوں سے مراعات، عہدے اور سر کے خطاب حاصل کئے، خواجہ فرید کا شاید اس لئے نہیں کہ وہ انگریزوں کے مخالف تھے انہوں نے اپنے مرید نواب آف بہاولپور کو کہا تھا: اپنی نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے اس کے علاوہ بھی خواجہ کا کلام گہرے کا مطالعے ذکر متقاضی ہے کہ انہوں نے اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے اس قدر پیار کیا کہ اپنی روہی (چولستان) کے کانٹوں کو شمشاد صنوبر اور ریت کے ٹیلوں کو کوہ طور سے تشبیہ دی۔خواجہ فرید نے سات زبانوں میں شاعری کی مگر سب سے زیادہ پذیرائی ان کے سرائیکی کلام کو ملی،
خواجہ فرید کا کلام ایک سو سال سے سرائیکی وسیب کے دلوں پر راج کر رہا ہے، ان کے پائے کا شاعر سوسال بعد بھی پیدا نہیں ہوا، علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ صاحب خواجہ فرید کے مداح تھے، آخری عمر میں خواجہ فرید کا دیوان ان کے سراہنے رہتا اور وہ دیوان پڑھتے رہتے اور زارو قطار روتے رہتے۔ خواجہ فرید کی سرائیکی شاعری بارے علامہ اقبال نے فرمایا کہ خواجہ فرید کے کلام میں مجھے عالمگیریت نظر آتی ہے مگر افسوس کہ یہ کلام خاص علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے آج علامہ اور ان کے کلام کا بہت چرچا ہے مگر علامہ نے بعد میں کہا: اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن لیکن علامہ اقبال سے بہت پہلے خواجہ سئیں نے فرمایا: جے کوئی چاہے فقر فنا کوں اپنے آپ کوں گولے پاکستان کے تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ شاعر احمد فراز نے کہا: ڈھونڈ ا±جڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے ممکن ہے تجھے خرابوں میں ملیں مگر خواجہ فرید نے اس موضوع پر ایک سو سال پہلے جو بات کی وہ نہ صرف حقیقت کے قریب بلکہ شک کے عیب سے پاک اور دھرتی کی محبت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، خواجہ صاحب نے فرمایا: ا±تھ درد منداں دے دیرے جتھ کرڑ، کنڈا، بوئی ڈھیرے اس طرح ہندوستان، ایران اورپاکستان کے بہت سے شاعر اپنی شاعری میں اپنے محبوب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ تم میری آنکھوں میں آجاﺅ، میں آنکھیں بند کر لوں، تجھے کوئی نہ دیکھے اور میں دیکھتا رہوں، مگر خواجہ صاحب نے اس موضوع پر جو بات کی یا شعر موزوں کیا وہ بہت بڑی بات ہے اس کا مفہوم نہ صرف وسیع بلکہ عالمگیر ہے اور ایسی بات عالمگیر سوچ رکھنے والی کوئی شخصیت ہی کر سکتی ہے اور آپ فرماتے ہیں: اَکھیاں دے وچ قطر نہ ماوے سارے سجن سماندے سٹ تے ورد فرید ہمیشہ گیت پرم دے گاندے میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ فرید بہت بڑا شاعر ہے ان کے کلام کو عالمی ادب کیلئے ترجمہ کرنے اور اسے پوری دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے آج کی بدامنی دہشت گردی اور مادہ پرستی کے دور میں خواجہ فرید کے امن، پیار و محبت کے پیغام پوری دنیا میں عام کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہمارے ادارے اور اکابرین یہ کام کر دیں تو یہ بات نہ صرف امن عالم کیلئے مفید ہو گی بلکہ سرائیکی قوم کیلئے بھی عزت و توقیر کا باعث بنے گی۔ خواجہ فرید کی جان پہچان کے حوالے سے ان کا بڑا حوالہ سرائیکی شاعری کا ہے، فریدیات کے ماہرین ایک عرصے سے لکھتے آرہے ہیں علامہ رشید احمد طالوت صاحب نے سب سے پہلے ایک سو صفحات سے زائد دیوان فرید کا مقدمہ لکھ کر اس کام کی اچھی بنیاد بنائی، اس طرح ڈاکٹر مہر عبدالحق، مولانا نور احمد فریدی، ظامی بہاولپوری، دلشاد کلانچوی، صدیق طاہر مرحوم جیسے بزرگوں سمیت بہت اصحاب نے کلام فرید پر تبصرے لکھے ہیں اور آج بھی یہ سفر جاری ہے، سینکڑوں لوگ فریدیات کے حوالے سے کام کر رہے ہیں بزم ثقافت ملتان، سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور، جھوک پبلشرز ملتان اور سرائیکی ادبی بورڈ ملتان نے بھی سو سالہ جشن فرید کے حوالے سے بہترین کتب شائع کی ہیں، غرض علامہ طالوت سے لیکر ڈاکٹر طاہر تونسوی تک، فریدیات کا یہ علمی سفر جاری ہے اور انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا اور خواجہ فرید کی شاعری کے حوالے سے نت نئے گوشے سامنے آتے رہیں گے۔ باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کی خواجہ فرید چیئرفنکشنل کرائیں، فرید محل واگزار اور کوٹ مٹھن میں فکر فرید یونیورسٹی کے ساتھ ایوان اقبال لاہور کی طرز کا ایوان فرید قائم کرائیں تو ان کے کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ