سی ایس ایس پر بات کرنے سے پہلے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر سرفراز چیمہ کے اس بیان پر بات کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا کہ ” بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے پر مشتمل ن لیگ کا بل سازش اور شرارت ہے “۔ ان کا کہنا ہے کہ ” ن لیگ صوبہ نہیں بنوانا چاہتی بلکہ صوبے کا مقدمہ خراب کرنا چاہتی ہے۔“ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف نے صوبے کے نام پر ووٹ لئے ‘ 100 دن کا وعدہ بھی کیا ، وہ ابھی تک اس مسئلے پر خاموش کیوں ہے اور اسمبلی میں بل کیوں نہیں لائی؟ سازش کا نام دے کر تحریک انصاف اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کی کوشش نہ کرے بلکہ وسیب کی شناخت اور مکمل حدود پر مشتمل صوبے کا بل اسمبلی میں لائے۔ میں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کی خدمت میں ایک درخواست بھیجی تھی کہ صوبے کے مسئلے پر وعدے ہو رہے ہیں ، وسیب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بن جاتا ، سی ایس ایس کا کوٹہ الگ کیا جائے کہ اس کی پہلے سے مثال موجود ہے۔ سندھ چھوٹا صوبہ ہے اس کے دو زون ہیں اور پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے یہاں ایک لولہا لنگڑا زون تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا یہ ظلم اور ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟یہ اقدام امتیازی ہے۔ سی ایس ایس کا کوٹہ وسیب کو آبادی کے مطابق ملنا چاہئے۔ سی ایس ایس کے صوبائی کوٹہ کا مقصد پسماندہ علاقوں اور صوبوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا ، پنجاب میں اس کا الٹ اثر ہوا کہ پسماندہ وسیب کی آبادی کو شمار کر کے صوبے کا کوٹہ حاصل کیا جاتا ہے مگروسیب کو تکنیکی انداز میںآﺅٹ کر کے تمام اہم عہدے کہیں اور دے دیے جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی میں وسیب کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ آئین کے مطابق پورا ملک اوپن میرٹ کر دیا جائے۔
سی ایس ایس کے سلسلے میں نئی پیشرفت 10 فیصد خواتین کا کوٹہ ہے ، اس میں بھی سرائیکی وسیب کی خواتین محروم رہیں گی ، سرائیکی وسیب کی خواتین کو تب فائدہ ہو سکتا ہے جب سرائیکی وسیب کا کوٹہ ہو۔ اقتدار ملنے کے بعد پنجاب کے سیاستدان اور افسران بہت سمجھدار ہو چکے ہیں وہ اس طرح کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس کا فائدہ کسی اور کو ملے۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی اسی طرح کا ایک ایسا ہتھیار ہے۔ اب بیورو کریٹ اور سمجھدارسیاستدان اپنی اولادوں کو ڈاکٹر یا انجینئربنانے کی بجائے انہیں سی ایس ایس کراتے ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کا مطلب ایک ڈاکٹر ہے لیکن اگر تم سی ایس ایس کر کے صوبے کے سیکرٹری صحت بنو گے تو پورے صوبے کے ہسپتال اور چھوٹے بڑے تمام ڈاکٹر تمہارے ماتحت ہوں گے۔ اسی طرح ایک انجینئر کا مطلب بھی ایک انجینئر ہے۔ اگر تم ڈی سی او ، ڈی پی او یا سیکرٹری بنو گے تو بڑے بڑے انجینئر دم ہلا کر تمہارے حضور پیش ہوں گے۔ پنجاب کے افسران کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان باتوں کا ان کو علم ہے تو سرائیکی وسیب کے لوگ بھی یہ سب کچھ جانتے ہیں، ان سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں سب سے زیادہ اہمیت سی ایس ایس کو حاصل ہے کہنے کو تو چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک ہر سرکاری ملازم ”نوکر “ہے مگر سی ایس ایس خصوصاً ڈی ایم جی اور پولیس افسران کیلئے یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے ،ان افسران کو انگلش سسٹم کے تحت ٹریننگ بھی ”نوکر “ والی نہیں بلکہ ”آقا “ والی دی جاتی ہے ،ایک سی ایس ایس افسر وزیرسے زیادہ اہم اس لیے ہوتا ہے کہ ”وزارتیں “آتی جاتی رہتی ہیں مگر افسر جہاں بھی بیٹھاہو ”حاکم “ ہی ہے ،تقسیم سے پہلے انگریز نے” حق حکمرانی“ اپنے وفاداروں کو دیا جس کے نتیجے میں ان پڑھ سردار وڈیرے اور تمندار مجسٹریٹ ‘جج اور پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہوئے مزید بر آں انگریز اسٹیبلشمنٹ اور فوج میں بڑی تعداد صوبہ پنجاب اور یو پی، سی پی سے شامل ہوئی ان لوگوںنے اپنی” خصوصی سروسز“ سے انگریز سرکار کو استحکام بخشا اور یہ تینوں طبقے یعنی جاگیردار، ملٹری و سول بیورو کریٹ آخر وقت تک انگریز کے وفادار رہے اور 13اگست 1947ءکے دن کی تنخواہ بھی انگریز سرکار سے وصول کی انہی” قربانیوں“ کے صلے میں ہمیشہ کیلئے ”حق حکمرانی “ انہی طبقات کیلئے خاص ہوا۔ آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے آزادی کے بعد بھی پیچھے رہ گئے ، منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق حکمران طبقہ آج بھی قربانیاں دینے والے غریبوں کی اولادوں کو آگے نہیں آنے دے رہا۔
پبلک سروس کمیشن کے پاس پوزیشنیں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا قانونی ہتھیار 300نمبروں کا انٹرویو ہے جو کہ چیئر مین اور ممبران کے طے کردہ ”باہمی فارمولے“ کے تحت صوابدیدی اختیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پہلی ناانصافی یہ ہے کہ حکمرانوں نے وسیب کو تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا ہے۔تعلیمی سہولتیں برابر مہیا نہ ہوں تو مقابلہ در اصل کار اور جہاز سوار کا ہو جاتا ہے۔روجھان،راجن پور ،بھکر ،بہاولنگر ،یا وہاڑی وغیرہ کے طالبعلم کا مقابلہ ایچی سن کالج کے طالبعلم سے کرانے کے نتیجہ میں اسی فیصد امیدوار تو مقابلے کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوجاتے ہیں، دکھاوے کے طور پر چند ایک کو آنے دیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 100نمبروں کا ایک آپشنل پیپر پاکستانی زبانوں جس میں سندھی ،پنجابی ،پشتون اور بلوچی وغیرہ میں شامل ہت، مگر سرائیکی اس میں شامل نہیں حالانکہ سرائیکی زبان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے ،جس امیدوار نے حکومت کے اپنے اداروں سے اپنی گریجویشن اور ماسٹر سرائیکی میں کی ہے وہ سندھی بلوچی یا پشتو میں پیپر دیکر کس طرح نمبر لے سکتا ہے ؟سی ایس ایس کے امتحان میں عظیم سرائیکی زبان کو محروم رکھنا غلط ہے کہ سرائیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے اور اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)