21 فروری ، پوری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تقریبات ہو رہی ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں صرف تقریبات منعقد کی جائیں گی یا پھر عملی طور پر بھی پاکستانی زبانوں کی ترقی کیلئے کچھ ہو گا؟ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف پاکستانی زبانوں جنہیں ہم ماں بولیوں کا نام دیتے ہیں کے حقوق کیلئے سیمینار ، ورکشاپس ، کانفرنسیں، جلوس اور ریلیاں ہو رہی ہیں ، ریڈیو ٹیلیویژن پر پروگرام پیش ہو رہے ہیں اور اخبارات کے خصوصی ایڈیشن شائع کئے جا رہے ہیں ، دوسری طرف حکومت چینی زبان سیکھنے کیلئے زور دے رہی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ماں بولیوں کیلئے محض ’’ لولی پاپ ‘‘ کے سوا کچھ نہیں ۔ نہ جانے بدیسی سوچ اور ذہنی غلامی سے ہم کب آزاد ہونگے اور کب ہم میں پاکستانی سوچ پیدا ہو گی اور کب ہم بدیسی زبانوں کا طوق اپنے گلے سے اتار کر دیسی زبانوں کو ان کا حق اور مقام دیں گے ؟ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آؤٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں، ایساکر کے آپ اس کا انسانی شرف چھین کر اس میں حیوانیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب ، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں ، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔ حکمران کرسی و اقتدار کیلئے اپنی مذموم ضرورتوں کے تحت مصنوعی فلسفے اپنے گھر میں رکھیں، ایڈہاک پر بنائی گئی پالیسیاں اور فلسفے ختم کریں جو قومی امنگوں اور قومی ضرورتوں کے عین مطابق ہوں اور وہ مستقل رویہ اختیار کیا جائے جس میں پاکستانیت چھلکے۔ میں صاف بتانا چاہتا ہوں کہ سونیا گاندھی کا یہ مستقل بیان کہ ہم پاکستان سے ثقافتی جنگ ہمیشہ کیلئے جیت چکے ہیں، اس بناء پر درست ہے کہ ہندوستان کی ہندی جسے اردو کا نام دیا گیا کو پاکستان کی ملکہ بنا دیا گیا تو پھر تمام قومی پالیسیاں ڈرامہ ، آرٹ، فلم، تعلیم، تحقیق سب اس کے زیر اثر آ گیا تو پھر پاکستانیت کہاں رہی؟ ان حالات میں سونیا گاندھی یہ دعویٰ کیوں نہ کرے کہ ہم نے ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے 1849 ء میں جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نے اردو کو پروان چڑھایا کہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، اردو کو پروان چڑھانے کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں کو پتہ تھا کہ اردو مصنوعی زبان ہے، اس کا اپنا کوئی خطہ یا اپنا کوئی جغرافیہ نہیں، اس زبان سے کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے گی جس سے اسے خطرہ ہو، انگریزوںنے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت سر سید احمد خان جیسے حامیوں کے ذریعے اردو کو پروان چڑھانے کا کام لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انگریز اردو کو پروان چڑھانے کا کام کر رہا تھا تو کچھ ایماندار افسر اپنی دیانتدارانہ رائے بھی دے رہے تھے کہ اصل حق ماں بولیوں کا ہے اور ان کی ترقی اور تعلیم کے ذریعے خواندگی کی شرح میں اضافے کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر شاہ پور (حالیہ سرگودھا) میجر ولسن کے نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی باتیں ’’پنجاب میں اردو ‘‘ نامی کتاب میں شائع ہو چکی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ماں بولیاں انسان کو انسان بناتی ہیں اور اگر آپ کسی شخص کو اس کی ماں بولی اور اس کے تہذیبی ورثے سے محروم کریں گے تو پھر یونہی سمجھئے انسانی زندگی کی مشینری انسان نہیں روبوٹ چلا رہے ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عملاس کے برعکس ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1952ء بنگالی شہداء کی یاد میں 21 فروری کو ماں بولی کا دن قرار دیا ہے، پوری دنیا میں یہ دن جوش ، جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے، 21 فروری 1952ء کا واقعہ ڈھاکہ میں پیش آیا، بنگالی طلبہ شہید ہوئے، مشرقی پاکستان الگ ہوا، پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوںکا درجہ دیا جائے اور بدیسی زبانوں کو ان کے اپنے مقام پر رکھا جائے۔ بحیثیت زبان اردو یا پنجابی کا جتنا حق بنتا ہے انہیں ملنا چاہیے مگر دوسری پاکستانی زبانوں کو بلڈوز کرنے اور ان کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ