عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر در اصل ذوالفقار علی بھٹو کے ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ کے نعرے کا چربہ ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھٹو غریب کو روٹی ، کپڑا ،مکان نہ دے سکے مگر غریب کو اس کے ہونے کا احساس دے دیا جبکہ موجودہ حکمرانوں کے وژن میں مجھے ایسی کوئی بات نظر نہیں آ رہی ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم کرنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں ‘ اس سے کیا ہوگا ، در اصل ضرورت غربت ختم کرنے کی ہے اور غربت صرف پاکستان ہی نہیں عالمی مسئلہ ہے اور غریب کو غریب کرنے کا باعث وہ عالمی استعمار ہے جس کے خلاف بھٹو بولتے تھے اور جنہوں نے بھٹو کو اپنے ایک مہرے کے ذریعے تختہ دار تک پہنچایا ۔ آج بھی تیسری دنیا کے ممالک اور غریب طبقات کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دولت مند سامراج کا بھٹو کے خلاف اقدام ایک شخص نہیں بلکہ ایک طبقے کے خلاف تھا ، جس کا نام غریب ہے ۔ آج کے نئے بیانیے کے مطابق بات کو وہیں سے پرکھنے ، جانچنے اور شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست بھٹو کے تذکرے کے بغیر نا مکمل اور ادھوری ہے ، بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ نواز بھٹو(1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشیدبانو شاہ نواز کی دوسری بیوی تھیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں‘اصل نام لکھی بائی تھا لیکن شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام خورشید رکھا گیا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برکلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اوکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔ 1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا۔ آپ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔ وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30نومبر1967ء کو آپ نے اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جو کہ سرائیکی صوبہ تحریک کے بانی ریاض ہاشمی مرحوم کے حوالے سے ہے ، وہ بتاتے تھے کہ ہم بہاولپور صوبے کی تحریک شروع کیے ہوئے تھے اور برسر اقتدار آنے کے بعد بھٹو مجھے اپنے طیارے میں کراچی سے لاڑکانہ لے گئے اور مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر حقائق سے آگاہ کیا اور کہا کہ تم لوگ تین اضلاع کے صوبے کی بجائے تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر صوبے کا مطالبہ کرو ، مجھے بات سمجھ آئی اور آج ہم وسیب کی حیثیت سے عوام کی عدالت میں پیش ہیں۔ وسیب کے حوالے سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا وسیب سے جذباتی لگائو تھا، ان کو سندھی کا شاید ہی کوئی شعر یا د ہو لیکن بہت سی سرائیکی کافیاں انہیںزبانی یاد تھیں، ذوالفقار علی بھٹو ایوان وزیر اعظم میں خصوصی محافل سجا کر پٹھانے خان سے صرف سرائیکی کافیاں سنتے۔ سرائیکی سے محبت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو یقین ہو چکا تھا کہ ضیاء الحق کورٹ اسے نہیں چھوڑے گی تب بھی آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے وسیب زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت میں سرائیکی زبان کی قدامت عظمت اور مٹھاس کو زبر دست الفاظ میں خرا ج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ شعر سنائے ’’ درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘ سنائے یا پھر اس سے پہلے جیل میں ہر وقت ان کی زبان پر ’’کیکوں حال سنْاواں دِل دا،کوئی محرم راز نہ مِلدا‘‘کے بول ہوتے ۔ سوال یہ ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی ایک جھلک بھی موجود ہے؟ گزرے لمحات کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیاتھا، ضیاء کی ظلمت پاکستان پر مکمل چھا چکی تھی، ان دنوں میں رحیم یار خان کے پر میںایک پرنٹنگ پریس کے دفتر میں ملازمت کرتا تھا، پریس کے مالک جماعت اسلامی کے امان اللہ خان (ہاکی کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی سمیع اللہ اور کلیم اللہ کے چچا) تھے، سارا دن جماعتی جمع رہتے، خان پور سے میرے ملنے والے شاعرراز جتوئی بھی بھٹو مخالف قومی اتحاد کا انتخابی نشان ’’ہل‘‘ شانے پر رکھ کر آ جاتے، سارا دن وہ ملکر بھٹو کے خلاف اپنا غبار نکالتے،میں پی پی کا جیالا یا رکن نہیں تھا ‘ میرا تعلق سرائیکی تحریک سے تھا،دائیں بازو کی جماعتیں صوبے کی مخالف تھیں جبکہ بھٹو سے ہمدردی اس بناء پر تھی کہ وہ وسیب کے زبان و کلچر کی بات کرتے تھے۔ جماعت کے لوگ اس وقت بھٹو کے حق میں کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔بعض مرتبہ تلخی بھی ہوئی لیکن پرنٹنگ پریس کے مالک کے سامنے میں اکثر خاموش رہااور رات کو اپنے کمرے میں جا کر عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے غمگین گانے سنتا، اخبار پڑھنے کا بہت شوق تھا، اخبار میں ضیاء الحق کا فوٹو رنجیت سنگھ جیسا لگتا، البتہ اخبار میں خبر آتی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نصرت بھٹو کو رحم کی اپیل سے روکدیا ہے تو حوصلہ ہوتا کہ وہ جان پر آن کو ترجیح دے رہا ہے۔ 4اپریل 1979ء کواپنا کام کتابت کر رہا تھا، قریباً10 بجے کا ٹائم ہوگا، ساتھ والے پریس سے عبدالقیوم خان بھاگتے آئے ان کا سانس پھولا ہوا تھا، بتایا کہ بھٹو کو پھانسی ہو گئی، میں بہت رویا مگر مجھ سے زیادہ پریس مالک و جماعت اسلامی کے رکن امان اللہ خان روئے، تھوڑی دیر میں پریس عملہ اور ہمسائے بھی آ گئے، سب ایسے رو رہے تھے جیسے گھر میں قریبی عزیزی کی میت آ گئی ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ