جہاں جاتاہوں پہلا سوال ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے بارے میں کیا جاتا ہے،اور پوچھا جاتا ہے کہ کیا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے صوبہ بنوا دینگے ؟اصولی طور پر یہ سوال جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں سے ہونا چاہئے اور جواب بھی ان کو دینا چاہئے۔ البتہ ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ سرائیکی جماعتوں اور سرائیکی صوبہ تحریک پر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ، لیکن افسوس کہ یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے سرائیکی تحریک اور سرائیکی جماعتوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، پہلے میں مثبت باتوں کا ذکر کرونگا کہ مجھ پر سب لوگ ناراض ہوتے ہیں کہ میں ہر معاملے میں سخت رویہ اختیار کرتا ہوں اور یہ بھی مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ مجھے تنقید کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اسلئے سب سے پہلے مثبت پہلو کا ذکر کروں گا۔
* رانا قاسم نون نے کہا کہ سرائیکی وسیب کی تہذیب ، ثقافت پنجاب سے الگ ہے ۔ طاہر چیمہ نے کہا کہ انتظامی صوبے کی بات محض اصطلاح ہے ۔ ہم مکمل صوبہ مانگتے ہیں ۔ مخدوم باسط سلطان نے جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی صوبہ محاذ اور سرائیکی صوبے کی بات کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ آہستہ آہستہ سرائیکستان کے مطالبے کی طرف آئیں گے ۔ جاگیرداروں اور آباد کاروں کی زبان سے صوبے کا لفظ سن کر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں :برسوں کی اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں ، ہم آج تیرے لب سے ادا ہونے لگے ہیں۔
* یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے آنے سے صوبے کا ایشو ایک مرتبہ پھر طاقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
* خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں چوہدری طاہر اقبال ‘ چوہدری سمیع اللہ اور چوہدری طاہر چیمہ کی شرکت نے صوبہ تحریک کو لسانیت کے الزام سے بچا لیا ہے۔
* ن لیگ نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر وسیب کے کروڑوں لوگوں کو دھوکہ دیا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی ن لیگ سے بغاوت اس دھوکے کا جواب ہے۔ یقیناًاس سے ن لیگ کو ضعف اور تکلیف پہنچی ۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے چوہدری سمیع اللہ کے چلے جانے پر کہا کہ ان کے جانے سے مجھے بہت صدمہ ہوا ہے اور میرا دل کرچی کرچی ہو چکا ہے۔
* چوہدری سمیع اللہ نے بہاولپور صوبے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے ایک صوبے کی بات کر کے ن لیگ کے وسیب کو تقسیم کرنے کے فارمولے پر لڑاؤ اور حکومت کرو کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔
یہ چند مثبت پہلو تھے ۔ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ۔ لیکن جو حقیقی بات ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں ۔ ان لوگوں نے تین ڈویژنوں کے صوبے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ضلع ساہیوال کو ملتان سے کاٹ کر ڈویژن بنا دیا گیا ۔ چند سال پہلے اوکاڑہ تک محکمہ ہائی وے والوں نے جنوبی پنجاب کے بورڈ لگائے ہوئے تھے ، پھر آہستہ آہستہ یہ بورڈ کھسکتے کھسکتے ساہیوال تک آ گئے اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے عاقبت نا اندیشوں نے ساہیوال کو بھی جنوبی پنجاب سے نکال دیا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ زمین سکڑ گئی ہے یا اس علاقے کو آسمان نے اُچک لیا ؟ اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ ساہیوال ڈویژن بنا تو اسے انکم ٹیکس زون بھی بنایا گیا اور خانیوال کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا تو اس پر ہم نے سب سے زیادہ احتجاج کیا مگر میرے احتجاج پر کسی نے توجہ نہ دی اور ایک مرتبہ میں نے سید یوسف رضا گیلانی کو کہا کہ آپ لوگوں کی اسی طرح خاموشی رہی تو پنجاب کے حکمران آپ کے جنوبی پنجاب کو چوک کمہارانوالہ تک لے آئیں گے اور کہیں گے کہ یہاں سے شروع ہوتا ہے آپ کا صوبہ جنوبی پنجاب ۔
یہ حقیقت بھی ہے کہ اور جملہ معترضہ بھی ، لیکن جو بات میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کا لفظ ہمارے لئے گالی ہے ۔ میرا ایک سوال ہے کہ ہم رنجیت سنگھ کے کی بربریت کے خلاف دو صدیوں سے مسلسل سراپا احتجاج چلے آ رہے ہیں، اگر ہمارے گھر میں بیٹا ہو تو کیا ہم اس کا نام رنجیت سنگھ رکھیں گے؟ اسی طرح دو صدیوں تک پنجاب نے ہمارا استحصال کیا ۔ آج اگر ہمارا صوبہ بنتا ہے تو کیا ہم اس کا نام جنوبی پنجاب رکھیں گے۔ یہ تو نہایت ہی پرلے درجے کی حماقت ہے ۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے چیئرمین میر بلخ شیر مزاری سے انگریزی اخبار ’’ دی نیوز‘‘ کے صحافی شیر علی خالطی نے سرائیکی صوبے کی شناخت کا سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ مجھے سرائیکی صوبہ نہیں ‘ جنوبی پنجاب صوبہ چاہئے ۔‘‘ میں میر بلخ شیر مزاری اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ کسی کے کہنے پر جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے صوبہ محاذ میں آئے ہیں اور آتے ہی صوبے کے ٹھیکیدار بھی بننے لگے ہیں ۔
ان لوگوں سے پوچھئے جو نصف صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں اور جنہوں نے اس کاز کو اپنی زندگیاں دی ہیں ۔ آپ کون ہوتے ہیں‘ صوبہ بننے سے پہلے صوبے کو لولہا لنگڑا اور بے شناخت کرنے والے ؟ آپ کو ٹھیکیداری کا کس نے اختیار دیا ہے؟ کیا آپ کو علم نہیں کہ پنجاب اور پنجابی کے نام پر بلوچستان اور کراچی سے سرائیکی مزدوروں کی لاشیں آئیں ۔کیا آپ کو علم نہیں کہ جس عظیم سرائیکی زبان میں پی ایچ ڈی تک ہو رہی ہے تو کیا وہ اپنی مقدس سرائیکی زبان کو ترک کر کے آپ جیسے نسل در نسل غلاموں کے غلاموں کی بات میں آ کر خود کو جنوبی پنجابی لکھوانا شروع کر دیں گے ؟ ہوش کے ناخن لیجئے سرائیکی عظیم قوم ہے ۔ اس کی اپنی دھرتی ‘ اپنا خطہ، اپنی تہذیب ‘ اپنی ثقافت اور اپنی زبان ہے۔ قوموں کے وطن ہوتے ہیں اور ان کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے۔ وسیب کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو نمک پاشی نہ کیجئے ۔ آج وسیب کا نوجوان جس جوش اور ولولے کے ساتھ بیدار ہوا ہے ‘ اگر اس نے اقتدارکے مراکز کا طواف کرنے والے آپ جیسے غلاموں سے دو صدیوں کا حساب مانگ لیا تو پھر آپ کو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس لئے میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہماری توہین نہ کیجئے ‘ ہم نہ برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر صوبہ قبول کریں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے جس طرح دوسرے صوبے ہیں ‘ اسی طرح وسیب کی شناخت اور اس کی مکمل حدود کے مطابق صوبہ دے دیں ۔
اب میں اس بات کا تذکرہ کروں گا کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے آنے سے سرائیکی جماعتوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں ۔ ان کوکام کی رفتار بڑھا دینی چاہئے۔ اب ان کو ایک طرف نہیں شش جہات نظر رکھنا ہوگی ۔وسیب کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی حالات و واقعات پر نظر رکھنا ہوگی ۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف سیاسی رہنماؤں کی نشست و برخاست کو دیکھنا ہوگا اور مختلف سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کے عمل کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں ایک ہزار فیصد تک اضافہ کرنا ہوگا۔ اضافہ کرنے کی بجائے ہوایہ ہے کہ سرائیکی تحریک کی ایک فعال رہنما محترمہ عابدہ بخاری سرائیکی تحریک کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں چلی گئی ہیں ۔ ایک نوجوان سیاسی رہنما کہہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما رانا قاسم نون سے ہماری رشتہ داری ہے اس لئے ہم ان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی سیاست کا تاج جن کے سر پر ہے وہ جمشید دستی کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔ سرائیکستان لانگ مارچ کی عظیم الشان کامیابی کو فوٹو سیشن اور بچگانہ حرکتوں کی نذر کر دیا گیا ۔ لانگ مارچ کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ شاباش اسلام آباد اور لاہور کی مختلف جامعات کی سٹوڈنٹس کونسلوں کی کہ انہوں نے سرائیکی صوبے کیلئے مظاہرے کیے۔ ورنہ سرائیکی سیاسی جماعتوں کی حالت تو پتلی ہے۔ ان کو اتنا بھی ادراک نہیں کہ اب کام کا وقت آیا ہے ، لیکن اب یہ سوچ کر گھر بیٹھ گئے کہ صوبے کا کام جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے کریں گے۔ اوئے بابا ! خدا کا نام مانو ، یہ کب اپنی مرضی سے بولے ہیں ، ان کو بلوایا گیا ہے، تخت لہور اور تخت اسلام آباد کے درمیان اقتدار کی جنگ ہو رہی ہے ، دنیا کی تاریخ میں بڑوں نے کبھی کمزوروں کا نہیں سوچا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی غریب کا ذرہ برابر فائدہ ہوا ہے تو بڑوں کی جنگ میں ۔ خدا کرے اس جنگ میں غریب سرائیکی وسیب کا فائدہ ہو مگر خدا کیلئے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھو۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے آنے کے پہلے دن مجھے بھکر سے ملک طارق کھوکھر ایڈوکیٹ اور ڈی آئی خان سے ملک اسلم اعوان کے فون آئے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں نے ہمیں مجوزہ صوبے سے الگ کر کے ہماری خواہشات اور ہماری امیدوں کا قتل کیا ہے۔ میانوالی سے مظہر نیازی خود تشریف لائے اور کہا کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟ ریٹائرڈ چیف انجینئر ایریگیشن شیخ مرتضیٰ خورشید اور ایس ای خواجہ مختار احمد نے مجھے فون کر کے کہا کہ ان جنوبی پنجاب والوں کو سمجھائیں کہ میانوالی اور جھنگ کے بغیر تم صوبہ مانگ رہے ہو جس کا مقصد پیاس سے مرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے جاگیرداروں اور آباد کاروں کو سمجھاؤ کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ ٹانک سے مجھے سابق ناظم عبدالغفور دمانی نے کہا کہ ڈی آئی خان کے لوگوں کو جو خدشہ تھا وہی کچھ ہوا ۔ پہلے ہی ہمیں مقامی پشتون کہتے تھے کہ تم سے جنوبی پنجاب والے وفا نہیں کریں گے ۔ وہ صرف تم کو استعمال کر رہے ہیں ، جونہی موقعہ ملا وہ اپنا الو سیدھا کر کے نو دو گیارہ ہو جائیں گے۔
میں نے اس حالت میں سرائیکی جماعتوں کے دوستوں سے کہا کہ خدا کیلئے ہمیں ڈی آئی خان ‘ ٹانک ‘ میانوالی ‘ جھنگ اور بھکر فوری طور پر پہنچ کر لوگوں سے ملنا چاہئے کہ ہم اپنے اسی موقف پر پہاڑ کی طرح مضبوطی سے قائم ہیں اور ہم آپ کے بغیر کوئی صوبہ قبول نہیں کریں گے ۔ میں نے یہ بھی تجویز دی کہ وہاں پریس کانفرنسیں کرنی چاہئیں اور کارنر میٹنگز سے خطاب کرنا چاہئے ۔ مگر افسوس کہ سئیں خواجہ غلام فرید کوریجہ نے ٹائم دینے کے باوجود آج پھر شیڈول تبدیل کر دیا کہ شب برات کے موقع پر مریدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ ہوتا ہے ، نئے سرے سے ٹائم بنائیں گے۔ اب میں کیا بتاؤں مجھے دلی صدمہ ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ اختلافی باتیں نہ لکھوں، یار ! کیوں نہ لکھوں ، کیا ہم اپنا نقطہ نظر پیش نہ کریں؟ میں ایک بار پھر اپنے سینئر سرائیکی سیاستدانوں سے کہتا ہوں کہ خدا کیلئے تمام مصروفیات کو ترک کرکے سرائیکی صوبے کیلئے باہر نکلیں اور سب کے پاس جائیں اور ان کو کہیں۔ جو سرائیکی تحریک چھوڑ چکے ہیں وہ واپس آئیں اور جو لوگ سرائیکی تحریک کو را کی تحریک کہنے والوں کے ساتھ چل رہے ہیں ، ان کو چھوڑیں اور اپنا سرائیکی جھنڈا سربلند کریں اور قوموں کی زندگی میں باوقار طریقے سے زندہ رہنے کیلئے اپنی قومی آبرو اور اپنی قومی سلامتی پر حرف نہ آنے دیں ۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ 2 جون 2018ء کو سرائیکی وسیب پر قبضے کو دو سو سال ہونے جا رہے ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے قومی غیرت کا ثبوت نہ دیا اور سر اٹھا کر چلنا نہ سیکھا تو دو کی دو صفروں کے ساتھ تیسری صفر کا بھی اضافہ ہو سکتا ہے( اللہ نہ کرے )۔
فیس بک کمینٹ