موضوعات بکھرے پڑے ہیں ، کس کس کا ذکر کریں ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں کی مانند کس کس بات کا رونا روئیں ، لکھتے لکھتے بال سفید ہو گئے ، بینائی کمزور ہو گئی ، شوگر کا مرض الگ سے لاحق ہو گیا ، لیکن کیا کریں ہمارے ہاتھ میں نہ بندوق ہے نہ تلوار ،ایک قلم ہی تو ہے جس کے بل بوتے پر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ مختلف باتوں کا تذکرہ کریں تو ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ پانچ سالہ ”جمہوری “دور اختتام پذیر ہو گیا، جس طرح پیپلز پارٹی نے اپنی مدت پوری کر لی تھی اور وعدے پورے نہیں کئے تھے یہی کچھ (ن) لیگ کی حکومت نے کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے بہت سے اضلاع کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے کے بعد ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کیا الیکشن مقررہ تاریخ 25جولائی2018ءکو ہونگے؟ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف دو روزقبل راجن پور تشریف لائے انہوں نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ راجن پور ہسپتال کا معیار یورپ کے ہسپتالوں سے بڑھ کر ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے (ن) لیگ کے بھگوڑے ڈرامہ کر رہے ہیں، اگر سرائیکی خطہ کے لوگ صوبہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ میاں صاحب ! سرائیکی وسیب کے لوگوں سے مذاق صرف جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے نہیں بلکہ یہ مذاق اور ڈرامہ پیپلز پارٹی نے بھی کیااورآپ کی جماعت (ن) لیگ نے اپنے منشور میں یہ کہہ کر ڈبل ڈرامہ کیا کہ ہم ایک نہیں دو صوبے بنائیں گے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ موضوعات بہت ہیں، ان میں سے ایک پانی مسئلہ بھی ہے، سات دریاﺅں کی سرزمین کے وارث لوگ پیاسے ہیں ، ہر طرف سے العطش العطش کی صدائیں آ رہی ہیں۔ سرائیکی وسیب میں پانی کی قلت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف نے 1990ءمیں پانی کی تقسیم کے تحت سرائیکی وسیب کو پانی کا حصہ سندھ کو دیکر نعرہ بلند فرمایا تھا کہ بڑے بھائی (پنجاب) نے قربانی دی ہے جبکہ قربانی سرائیکی وسیب کو ذبح کر کے دی گئی اور یہ کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ ”وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب اُلٹا“۔ اپر پنجاب میں آج بھی جا کر دیکھیں تو پانی کھیتوں اور کھلیانوں سے باہر نکل کر آوارگی فرما رہا ہے جبکہ سرائیکی وسیب میں انسان اورجانور پیاس سے مر رہے ہیں اور کھیتوں میں آج کل کپاس کی کاشت کا سیزن شروع ہے مگر پانی نہیں، کاشتکار مارے مارے پھر رہے ہیں، آم کے باغوں کا برا حال ہے، چاول کی کاشت تو سرائیکی وسیب کیلئے عنقا ہوتی جا رہی ہے ۔ رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے اس ایشو کو اٹھایا تو (ن) لیگ کے آبپاشی کے وزیر نے اسے الیکشن سٹنٹ قرار دیکر وسیب کے کروڑوں افراد کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔ خبریں کے چیف ایگزیکٹو جناب ضیاءشاہد کا شکریہ کہ وہ پانی کے اہم ایشو پر وسیب کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں ۔
میں اپنی بات کو پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ (ن) لیگ نے اپنی مدت پوری کر لی مگر وعدے پورے نہیں کئے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ (ن )لیگ نے تعلیم ، صحت ، روزگار ، لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران سمیت بہت سے وعدے کئے تھے اور یہاں تک کہا گیا تھا کہ اگر 90روز کے اندر لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا تبدیل کر دینا، جس کی بناءپر ان کے سیاسی مخالف اب ان کو شوباز شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اگر ہم سرائیکی وسیب کو دیکھیں تو یہاں بھی مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ (ن) لےگ نے پنجاب اسمبلی سے قرارداد پاس کرائی اور اپنے منشور مےں لکھا کہ ہم جنوبی پنجاب،بہاولپور صوبہ بنائےں گے، بھاری مےنڈےٹ کے باوجود وعدہ پورا نہ کرنا حکمرانوں کی بدنےتی اور نا اہلی ثابت کرتا ہے، وسیب کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر صوبہ نہیں بنانا تھا تو پنجاب اسمبلی سے قرار داد کیوں پاس کرائی؟ اور اپنے منشور میں کیوں لکھا کہ ہم صوبہ بنائیں گے؟ ۔
واضح کرتے ہیں کہ وسیب کے لوگوں کے ساتھ مذاق بند ہونا چاہئے جس طرح پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے سرائیکی وسیب سے دھوکہ کیا اُن سے بڑھ کر ن لیگ کے اُن بھگوڑوںنے فراڈ کیا جنہوں نے بڑے طمطراق کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا پھر چند دنوں بعد ہی جنگی غبارے کی طرح ٹھس ہو کر عمران خان کی آغوش میں جا پہنچے۔ عمران خان نے کہا کہ ہم تین ڈویژنوں پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ بنائیں گے۔ اس پر سرائیکی وسیب میںسخت رد عمل ظاہر ہوا اور سرائیکستان صوبہ محاذ کے نام سے سرائیکی جماعتوں کا نیا الائنس سامنے آیا جنہوں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ عمران خان نے اگر حمایت کرنی ہے تو سرائیکی صوبے کی کریں ورنہ جنوبی پنجاب کے نام پر گالیاں دینا چھوڑ دیں ، سرائیکی صوبے کی پچاس سالہ پر امن جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ سرکاری منصوبہ ہے، ۔ جنوبی پنجاب صوبے کا شوشہ سرائیکی صوبہ بنوانے کیلئے نہیں بلکہ سرائیکی صوبے کو اپنے اہم اضلاع ٹانک ، میانوالی ، ڈی آئی خان ، جھنگ ،بھکراور دیگر سے محروم کرنے کیلئے ہے،یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک صوبے کو شناخت دینے کیلئے آئین میں ترمیم کر دی جائے اور دوسرے خطے کو صوبہ بننے سے پہلے لولہا لنگڑا اور بے شناخت کر دیا جائے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ نہ کسی کے کمی ہیں نہ مزارع، ان کا اپنا کلچر، اپنا جغرافیہ اور اپنی قدیم تہذیب ہے،وسیب کے لوگ لفظ جنوبی پنجاب کو اپنے لئے گالی سمجھتے ہیں ۔ عمران خان کو ٹانک ، ڈی آئی خان اور نواز شریف کو پنجاب کے مقبوضہ سرائیکی اضلاع ہڑپ نہیں کرنے دیں گے ۔ تحریک انصاف نے اگر کمیٹی بنانی ہے تو سرائیکی صوبہ کمیٹی بنائیں اوراس میں ٹانک و ڈی آئی خان کے نمائندے بھی شامل کریں ورنہ صوبے کے نام پر ن لیگ اور پی پی کی طرح لولی پاپ دینے سے گریز کریں۔
سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنماؤں کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ 2جون کو سرائیکی وسیب پر رنجیت سنگھ کے قبضے کو(2جون 1818ء، 2جون 2018ء) 200سال پورے ہو رہے ہیں ، تخت لاہور اورتخت پشور والوں نے وسیب کی آٹھ نسلیں برباد کر دیں ابھی کتنی سزا باقی ہے؟
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ جناب ضیاءشاہدنے اپنے دورہ ملتان کے دوران کہا کہ اس خطے کیلئے صوبے کی طرح پانی کا ایشو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت میں نے چوہدری برادران کو پنجاب میں نئے صوبے کی بات کی تو انہوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور پھر وہ خود اُسی بات پر آ گئے اسی طرح جاوید ہاشمی نے بھی پنجاب میں نئے صوبے سے متعلق میری بات کی حمایت نہ کی ۔ اب مخدوم خسرو بختیار کی بھی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے ،اسٹیبلشمنٹ صوبہ بنانا چاہتی ہے ، وہ اشارے پر ایساکر رہے ہیں ، جناب ضیاءشاہد نے اپنے خطاب میں کہا کہ روزنامہ خبریں ملتان نے جنوبی پنجاب میں بسنے والوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور خبریں کے زیر اہتمام ہونے والا سرائیکی مشاعرہ حقیقت میں ایک شام غم اور دکھوں کی عکاسی کرتاہے۔میرا بچپن اس علاقے میں گزرا ، یہاں مسائل ہی مسائل ہیں ، روزگار کے مساوی مواقع نہیں ، تعلیم کے مواقع نہیں اور میں گزشتہ 20 سال سے یہ سنتا آ رہا ہوں کہ صوبہ بن کر رہے گا ، تب لوگ کہتے تھے کہ آپ خیالی پلاو¿ پکاتے ہیں ، آج وقت آ گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے علاقوں پر مشتمل ایک نئے صوبے کا قیام سامنے لکھا ہوا نظر آ رہا ہے ، جناب ضیا ءشاہد نے کہا کہ کل تک جو لوگ کہتے تھے کہ فاٹا کچھ نہیں ہوگا اور آج فاٹا کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جنوبی پنجاب کے اس خطے کے لوگوں کی خواہشات پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے، میں نے کتابوں سے معلومات اکٹھی کیں بلکہ عام آدمی کی حیثیت سے اس خطے میں مسائل کو محسوس کیا ، میرا تو اپنا بچپن ملتان اور بہاولپور میں گزرا ۔ اس خطے میں بیروزگاری ہے، روزگار ہوتا تو لوگ خلیجی ریاستوں میں جا کر مزدوری نہ کرتے ۔یہ حقیقت نہیں ، زراعت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے اور معیاری تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے خطے کے لوگ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور یہاں کے قابل ذہین طلباءکا راستہ بھی رک جاتا ہے،جھجک اور خود اعتمادی کی کمی انہیں مزید محرومی میں دھکیل دیتی ہے ۔ میں نے زندگی میں بہت لوگ دکھ اور مصیب میں مبتلا دیکھے ہیں ، میں بڑے دکھ سے یہ بات کہتا ہوں کہ وفاقی بجٹ محض صوبے کے صدر مقام کو نہ دیا جائے بلکہ صوبوں کے بھی مختلف اضلاع میں آبادی کے تناسب سے اس کی مساوی تقسیم کی جائے ۔ لاہور کے گرد و نواح میں بھی ترقی کا نام و نشان نہیں ، اوکاڑہ ، پتوکی ، قصور ، رائے ونڈ ، کامونکی اور مرید کے سمیت دیگر علاقوں میں بھی ترقی نہیں ہوئی ۔ میری تجویز ہے کہ ہر ضلع کو اس کی آبادی کے لحاظ سے اس کا برابر حصہ ملے۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ