وفاداریاں تبدیل کرنے والے فصلی بٹیرے دنیا کے ہر خطے اور ہر علاقے میں موجود ہیں، پاکستان میں بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں فصلی بٹیرے نہ پائے جاتے ہوں، الیکشن کی آمد آمد ہے آج ہم سیاسی منظر کو دیکھتے ہیں تو جو لوگ آج تحریک انصاف میں ہیں کل یہ (ن) لیگ میں تھے، پرسوں (ق) لیگ و پیپلز پارٹی اور اس سے پہلے نہ جانے کہاں کہاں؟ سرائیکی وسیب میں جاگیردار سیاستدان انگریز دَور سے لے کر آج تک یہی کچھ کرتے آرہے ہیں، تحریک انصاف میں یہ ہوا ہے کہ جو لوگ برسہا برس سے قربانیاں دیتے آرہے تھے، جنہوں نے دھرنے دیئے اور گزشتہ الیکشنوں میں خرچے کئے، آج اُن کو ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا ہے اور جو لوگ کل تحریک انصاف والوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے ، آج وہ لوٹے بن کر ٹکٹیں لے اُڑے ہیں اور قربانیاں دینے والے رو رہے ہیں، یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی اسی کا نام ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداری ختم کرنے کے نام پر ووٹ لئے مگر جاگیر دار مضبوط ہوئے، ہم نے دیکھا کہ تمام جاگیردار پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بھٹو کو بحفاظت تختہ دار تک پہنچانے کے بعد آرام سے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ جاگیرداری پاکستان تو کیا پوری دنیا کا مسئلہ ہے، یہ ٹھیک ہے کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے دنیا کے اکثر ممالک میں جاگیرداریاں ختم کر دی گئیں، اس کے باوجود جاگیردار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، اب جاگیرداری ایک سوچ اور ایک تھنکنگ کا نام ہے، ہر ملک اور ہر علاقے کا اپنا اپنا رواج اور اپنی اپنی رسم ہے، مگر جاگیردارانہ سوچ ہر جگہ ایک ہے، جاگیردار کی کوئی ذات، برادری، اصول اور نظریہ نہیں ہوتا، وعدہ، قول، وفا، عزت، غیرت اُن کے لئے یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں۔ وطن وسیب مذہب اور قومیت اُن کے لئے یہ سب کچھ خانہ پری کیلئے ہے، کسی بھی وسیب کی تہذیب ، ثقافت اور آثار سے اُن کی کوئی دلچسپی نہیں، فوک، شاعری یا نثر سے بھی ان کا کوئی لینا دینا نہیں، البتہ بے وفائی، طوطا چشمی، چڑھتے سورج کے پجاری، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی، اقتدار، کرسی، عہدہ، ابن الوقتی اور اقتدار کے مراکز کا طواف ان کا پسندیدہ شغل ہے۔
اگر میں اپنے وسیب کی بات کروں تو سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں نے وفاداریاں بدلنے میں پوری دنیا کے فصلی بٹیروں کو مات دے دی ہے، جیسا کہ وسیب کے مخدوم خسرو بختیار، سکندر بوسن، رانا قاسم نون، مخدوم احمد انور اسی طرح کھر، کھوسے، دریشک، لغاری، مزاری، قریشی، گیلانی، ہاشمی، عباسی، ہراج، دولتانے، فتیانے، ٹوانے اور اسی طرح بہت سے دوسرے نئے نئے بھیس بدل کر سامنے آرہے ہیں، اگر ان کے سیاسی پس منظر پر غور کیا جائے تو یہ اور ان کے بزرگ اب تک درجنوں جماعتیں تبدیل کر چکے ہیں، بلی کے بارے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بچے دیتی ہے تو اپنے بچوں کو سات گھر پھراتی ہے، ہمارے جاگیرداروں کا معاملہ بچے دینے والی بلی سے بھی بڑھ کر ہے، ویسے تو پرندے بھی گھونسلے بدلتے رہتے ہیں مگر سرائیکی وسیب میں جاگیرداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنے پہناوے نہیں بدلتے جتنی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں، لیکن اگر ان جاگیرداروں سے پوچھا جائے تو ان کا موقف یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی جماعت تبدیل نہیں کی، ہم ’’شاہی جماعت‘‘ کے لوگ ہیں، ہر آنے والے حاکم کو سلام۔ اس موقع پر میں یہ بھی کہوں گا کہ جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ وسیب کے نئے ’’جاگیردار‘‘ آباد کاروں کی شکل میں سامنے آئے ہیں اور یہ بھی ماشاء اللہ پرانے جاگیرداروں کے نقش قدم پر ہیں۔سابق صدر مملکت سردار فاروق خان لغاری کا پورے ملک میں ایک نام ہے، اُن کے صاحبزادے جمال لغاری اور اویس لغاری آج کل (ن) لیگ میں ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف کو دعوت دی ہے کہ وہ ڈیرہ غازیخان سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں، الیکشن لڑانا کوئی بری بات نہیں، آخر جاوید ہاشمی بھی لاہور سے الیکشن لڑتے رہے، لیکن جو بات قابل اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ انہی صاحبان نے گزشتہ الیکشن میں میاں شہباز شریف کو جام پور سے کامیاب کرایا تھا اور الیکشن کمپین کے دوران کہا گیا تھا کہ میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی کی قرارداد اور (ن) لیگ کے منشور کے مطابق سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے اقدامات کریں گے مگر جونہی میاں شہبازشریف جام پورسے کامیاب ہو کر لاہور پہنچے تو اُن کا پہلا بیان یہ تھا کہ ہم نے سرائیکی صوبہ تحریک کو دفن کر دیا ہے، لغاری سرداروں نے کیا جواب دینا تھا، سرائیکی جماعتوں اور تنظیموں نے اتنا کام کیا کہ سرائیکی صوبہ تحریک آج نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہے مگر مسلم لیگ (ن) کی زندگی کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہیں، میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ لغاری صاحبان تخت لاہور اُن میاں برادران کی خوشامد کر رہے ہیں جنہوں نے اُن کے والد سردار فاروق خان لغاری کے بارے میں کہا تھا کہ ’’انگریزوں کے کتے نہلانے والے غدار ابن غدار فاروق لغاری کو ہم معاف نہیں کریں گے‘‘ یہ ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ہمارے وسیب کے ایک جاگیردار زادے کا نام ہے مخدوم خسرو بختیار یہ صاحب گزشتہ الیکشن میں سرائیکی صوبے کے نعرے پر آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے پھر عبدالرحمن کانجو کی طرح میاں نوازشریف کی گود میں جا بیٹھے، مخدوم خسرو بختیار کے والد مخدوم رکن الدین مرحوم بھی اسی حلقے سے سرائیکی صوبے کے نعرے پر کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں سرائیکی کانفرنسیں بھی کرائی تھیں۔ مخدوم خسرو بختیار نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا، پھر چند ہی دنوں بعد اپنے ہی ہاتھ سے بنائے صوبہ محاذ کوختم کرکے تحریک انصاف میں پناہ لی، پھر اقتدار کے شوق میں اپنی سرائیکی ماں بولی سے اس قدر متنفر ہوئے کہ اُن کو کچھ یاد نہ رہا کہ میں کل کیا کہتا رہا ہوں اور آج کیا کہہ رہا ہوں،
میرا مخدوم خسرو بختیار سے سوال ہے کہ اگر سرائیکی صوبہ لسانی ہے تو دوسرے صوبے کیا ہیں؟ مزید یہ کہ جو صوبہ ابھی بنا نہیں اُس کے خلاف تو فتویٰ دے رہے ہو لیکن پہلے سے موجود صوبوں کے بارے میں لب کشائی کیوں نہیں کرتے؟ سوال یہ ہے کہ کب تک یہ جاگیردار لوگوں کو بیوقوف بنائیں گے، اب لوگ ایک ایک بات کے بارے میں پوچھ رہے ہیں گزشتہ روز ڈی جی خاں میں ایک غریب نوجوان نے سردار جمال لغاری کو روک کر کہا کہ تم لوگ اس دھرتی کے خدا بنے ہوئے ہو، بتاؤ کہ آپ نے ہمارے وسیب کی محرومی کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کئے؟ وہ کوئی جواب نہ دے سکے، ناطقہ سربہ گریباں ہے، اسے کیا کہئے، وسیب کے جاگیردارو! اپنی سوچ اور اپنے اطوار بدلو، قبل اس کے کہ پاؤ ں کو چھونے والے ہاتھ تمہارے گریبانوں کے آشنا نہ ہو جائیں۔
( بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز )