میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنر ملتان کی صدارت میں اہم اجلاس ہوا ۔ انہیں بتایا گیا کہ 23 ستمبر 2018ء کو صبح 10 بجے منعقد ہونے والے میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں 11192طلباء و طالبات شرکت کرینگے جبکہ 29 سپریٹنڈنٹ63 ڈپٹی سپریٹنڈنٹ اور 553 نگران ڈیوٹی سر انجام دینگے۔ ڈپٹی کمشنر ملتان مدثر ریاض نے اس موقع پر ہدایت کی کہ محکمہ ہیلتھ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگائے اور 1122 کو چوکس رکھا جائے ۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ ایمرجنسی فرسٹ ایڈ موٹر سائیکل کی ڈیوٹیاں بھی لگائی جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ کے نام پر اتنا بڑا میلہ لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ایک اہم بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں میڈیکل انٹری ٹیسٹ ہیلتھ یونیورسٹی لیتی ہے ‘ اب جبکہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی بن چکی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب بھی ہیلتھ یونیورسٹی لاہور امتحان لیتی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ انٹری ٹیسٹ غیر آئینی اور غیر قانونی اس لیئے بھی ہے کہ یہ گورنمنٹ کے اپنے ہی امتحانی سسٹم پر عدم اعتماد ہے۔ میٹرک یا ایف ایس سی کا امتحان کوئی ایرا غیرا یا نتھو خیرا نہیں لیتا، حکومت کا اپنا محکمہ تعلیم لیتا ہے، اگر وہ غلط ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ظاہر ہے اس کی ذمہ دار اور سزا وار حکومت ہے اور اگر حکومت کہتی ہے کہ یہ امتحان ٹھیک ہے تو پھر حکومت اپنے ہی رزلٹ کو کیوں تسلیم نہیں کرتی؟ ہاں ! ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی خرابی ہے تو اس کو کون ٹھیک کریگا؟ اسے ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے ، ان حقائق کے باوجود معصوم طلباء کو اذیت کا شکار کیوں کیا جاتا ہے ؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ذہنی صلاحیت میں سرائیکی وسیب کے طلباء کہیں آگے ہیں، باوجود اس کے کہ سرائیکی وسیب میں تعلیمی سہولتیں نہیں ، سائنس پڑھانے والے اُستاد نہیں ، سکولوں اور کالجوں میں سائنس کی لیبارٹریاں نہیں، اس کے باوجود وسیب کے طلباء اپنی محنت اور اپنی صلاحیت سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ حکمرانوںنے لاہور کی اکیڈمی مافیا سے مل کر سرائیکی وسیب کے طلباء کو آگے آنے سے روکنے کا پلان بنایا اور انٹری ٹیسٹ اور این ٹی ایس جیسے غلط اور بے ہودہ ٹیسٹ متعارف کرائے ، ظلم یہ ہے کہ پیپر سنٹر بھی لاہور کا اکیڈمی مافیا ہے ، امتحان بھی لاہور کی ہیلتھ یونیورسٹی لیتی ہے ، اپنی مخصوص بد دیانتی کے ذریعے وہ پیپر آئوٹ کرکے اپنوں کو سب کچھ بتا دیتے ہیں ، اسی طرح وسیب کے طلباء کا مستقبل ذبح کر دیا جاتا ہے ’’ وہی قتل بھی کرے اور وہی لے ثواب الٹا ‘‘ کے مصداق کا استحصالی اکیڈمی مافیاظلم بھی کر رہا ہے اور دولت بھی لوٹ رہا ہے۔ افتخار چوہدری نئے چیف جسٹس بنے تھے ، ان کو بہت شوق تھا ہر بات پر وہ از خود نوٹس لیتے، ایک مرتبہ انٹری ٹیسٹ کے طلباء سے فراڈ ہوا ، بہت سے طلباء ہائیکورٹ چلے گئے ،ملتان بنچ کے فاضل جج نے انٹری ٹیسٹ لینے والوں سے سوال کیا کہ میٹرک اور ایف اے میں اعلیٰ نمبر لینے والے ذہین طلباء کس طرح ناکام اور بہت ہی تھوڑے نمبر لینے والے ’’ماٹھے‘‘ طلباء کس طرح ذہین ہو گئے؟ انٹری ٹیسٹ والوں نے دوسری پیشی پر جواب داخل کرنا تھا کہ افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لے لیا ، اب سماعت سپریم کورٹ میں ہونے لگی ، افتخار چوہدری نے دلائل سننے کے بعد رولنگ دی کہ یہ درست ہے کہ انٹری ٹیسٹ ایک گورکھ دھندا ہے ، اس میں بہت بے ضابطگیاں ہیں ، اگر زیادہ تفصیل میں جایا جائے تو پنڈورا بکس کھل جائے گا ، لہٰذا رٹ دائر کرنے والے متاثرہ طلباء کے نمبروں کی ری کائونٹنگ کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس پر میں نے افتخار چوہدری کو خط لکھا کہ آپ انصاف نہیں کر رہے ہو ، خود ہی کہہ رہے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ گورکھ دھندا ہے ، بہت بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور اگر انصاف کی طرف جایا جائے تو پنڈورا بکس کھل جائے گا، تو گویا ظلم تسلیم کرتے ہوئے بھی خود ہی انصاف دینے سے انحراف کر رہے ہیں، جہاں تک ری کاؤنٹنگ کی بات ہے یہ تو طلباء فیس دے کر بھی ری کاؤنٹنگ کرا سکتے تھے آپ نے اتنا بڑا ظلم کیوں کیا، کیا اسی کا نام انصاف ہے؟ میں نے لکھا تھا کہ اگر میں نے کوئی غلط بات کی ہے تو مجھے عدالت میں بلایا جائے اور پھر میری سزا اگر پھانسی بنے تو وہ بھی دے دیجئے مگر ہمارے وسیب کے نونہالوں کو انکا حق دیجئے۔ افتخار چوہدری نے نہ تو میرے خط کا جواب دیا اور نہ ہی میرے وسیب کے نونہالوں کو حق دیا۔ ایک ظلم یہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں تعلیمی سہولتوں کی کمی ہے، ایچی سن کالج اور روجھان کالج کے طلبہ کے مابین مقابلہ کرانا جہاز اور سائیکل کا مقابلہ کرانا نہیں تو کیا ہے؟ اگر مقابلہ کرانا ہے تو ڈسٹرکٹ سطح پر کرا لیا جائے ورنہ فراڈ اور ظلم بند ہونا چاہیے۔ سرائیکی وسیب کے طلباء کے لئے سی ایس ایس کا کوٹہ الگ نہیں ، فوج میں وسیب کے اعلیٰ افسروں کی کمی اورسرائیکی رجمنٹ اور کیڈٹ ساز ادارے نہیں ہیں۔ فارن سروسز میں بھی ملازمتیں نہیں ملتیں، سرائیکی وسیب کے طلباء کے پاس میڈیکل یا وکالت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، اس لیے وسیب کے طلباء مجبوری کے تحت میڈیکل میں زیادہ جاتے ہیں۔انٹری ٹیسٹ کے موقع پر ایک بہت بڑا میلہ ہوتا ہے کہ امیدواروں کے ساتھ ان کے والدین اور بہن بھائی بھی آئے ہوتے اور اس موقع پر رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ والدین کی آنکھوں سے آنسوئوں کے دانوں کے ساتھ تسبیح کے دانے بھی ٹپک رہے ہوتے ،گزشتہ سال زکریا یونیورسٹی کی بارہ عمارتوں میں 137 سینٹر بنائے گئے تھے ، اس دوران انٹری ٹیسٹ کے دوران زیادہ رش اور سہولتوں کی کمی کے باعث کئی طلباء اور ان کے لواحقین بے ہوش ہوئے جن کو ہسپتال داخل کرانا پڑا ، اتنی بڑی محنت اور کوشش کے باوجود اس بار بھی سرائیکی وسیب کے طلباء کو لاہور کے اکیڈمی مافیا کے ظلم کے وجہ سے ناکام قرار دے دیا گیا جس پر طلباء کے والدین کے ساتھ تمام سرائیکی جماعتیں سراپا احتجاج ہوئے، اس موقعہ پر طلباء نے کہا ہے کہ انٹری ٹیسٹ کا ظلم بند کیا جائے ، سرائیکی صوبہ بنایا جائے ۔ اس سلسلے میں وسیب کے ارکان اسمبلی کو اسمبلیوں میں آواز بلند کرنی چاہیے اور اپنا حق نمائندگی ادا کرنا چاہیے اور انکو معلوم ہونا چاہیے کہ وسیب کے طلباء کتنی اذیت کا شکار ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب کے طلباء ذہنی اذیت کا شکار ہیں ، وہ ساری ساری رات پڑھتے ہیں ، انکا کھانا چھوٹ جاتا ہے، کمزوری سے ہڈیاں نکل آتی ہیں، آنکھوں پر موٹی موٹی عینکیں لگ جاتی ہیں مگر لاہور کا اکیڈمی مافیا ایک ہی آن میں انکا مستقبل تاریک کر کے رکھ دیتا ہے، وہ طلباء ذہنی مریض بن جاتے ہیں ، ان کی نیند حرام ہو جاتی ہے، بیٹھے بیٹھے عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں ، وہ صدمے کی وجہ سے دھاڑیں مار کر رونا چاہتے ہیں مگر رو بھی نہیں سکتے، وہ دیواروں سے ٹکریں مارتے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ بہت سے طلباء نے حق تلفی پر خود کشیاں بھی کیں۔ لیکن حکمرانوں کو خیال نہیں آیا؟ اب تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ۔ صوبے میں بھی اس علاقے کا وزیراعلیٰ ہے۔ ان کا پہلا کام وسیب کے طلبہ کو ان کا حق دلانا ہونا چاہئے۔ اب دیکھیں ظلم کا پہیہ اسی طرح چلتا ہے یا کوئی تبدیلی آتی ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ