الحمرا لاہور میں ہونیوالی سرائیکی کانفرنس کے دوسرے دن لاہور پریس کلب کی طرف سے معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا ، صدارت لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری اور سیکرٹری جنرل عبدالمجید ساجد نے کی جبکہ مہمان خصوصی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور بندہ ناچیز (ظہور دھریجہ) تھے، نقابت کے فرائض فاروق شہزاد نے سر انجام دیئے، لاہور پریس کلب لٹریری کمیٹی کے سرپرست زاہد گوگی ، میاں اورنگزیب رامش اور ڈاکٹر صغیر احمد صغیر نے شاکر شجاع آبادی کے فن اور شخصیت پر مقالے پیش کئے۔ تقریب کے ناظم فاروق شہزاد نے کہا کہ میرا تعلق صادق آباد سے ہے، گھر کی زبان سرائیکی نہیں مگر سرائیکی سے محبت کرتا ہوں کہ یہ ہمارے خطے کی نہایت شیریں، اور قدیم زبان ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاکر شجاع آبادی سرائیکی کا بہت بڑا شاعر ہے اور ایسے شاعر روز روز نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کرکے لاہور پریس کلب نے تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ یقینا یہ تقریب ہر لحاظ سے عظیم الشان اور یادگار بن گئی ہے کہ اس کا تذکرہ ہر زبان پر ہے، دوران تقریب ایک نوجوان مقرر نے مجھے موقعہ فراہم کیا، انہوں نے پنجابی میں تقریر کی اور کہا کہ زبانیں نفرت کیلئے نہیں بلکہ محبت کے اظہار کیلئے ہوتی ہیں۔ میں نے بھی سرائیکی میں گفتگو کی، میری تقریر کے دوران صوبائی وزیر خزانہ تشریف لائے اور جب ان کو بلایا گیا تو انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ میں سرائیکی میں بات کروں یا اردو میں، حاضرین میں سے آواز آئی سرائیکی میں، انہوں نے تقریر کا آغاز سرائیکی سے اور اختتام اردو میں کیا، میں بہت متاثر ہوا کہ لاہو رمیں سرائیکی اتنی محبت سے سماعت ہوتی ہے، مگر افسوس ہم اپنے وسیب میں سرائیکی تقریر کرتے ہوئے شرماتے ہیں، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں سے سرائیکی میں بات نہیں کرتے، ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ادب ثقافت اور سیاست کے میدان میں سرائیکی کا جھنڈا بھی اٹھائے ہوئے ہیں پر گھر میں بچوں سے اردو بولتے ہیں میں نے ایسے ایک آدمی پر اعتراض کیا تو اس نے کہا سئیں! ایسی کوئی بات نہیں ہم اپنے گھر کام کرنے والی ’’ماسی‘‘ سے سرائیکی میں بات کرتے ہیں، اس کی جاہلانہ سوچ کے بعد میں نے اس سے بات نہیں کی۔ میں نے شاکر شجاع آبادی کی شاعری کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ صوبائی وزیر خزانہ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں وسیب کی محرومیوں اور حقوق کا خیال رکھئے ،اور یہ بھی دیکھئے کہ 100 دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، صوبے کا وعدہ پورا نہ ہوا تو عمران خان سمیت تمام حکومتی پارٹی صادق اور امین نہیں رہے گی، وسیب کو وزارتیں یا وزیر اعلیٰ نہیں صوبہ چاہئے، وسیب کے صوبائی مسئلے فوری توجہ کے متقاضی ہیں پورے سرائیکی وسیب میں صرف ایک چولستان کیڈٹ کالج منظور ہوا، مگر دس سال سے فنڈز نہیں، میں نے یہ بھی کہا کہ پہلے تو ہم نواز شریف و شہباز شریف کو دوش دیتے تھے کہ وہ وسیب کا حق کھا گئے مگر اب ہمیں بتایا جائے کہ ہم کس کو دوش دیں؟ میں نے صوبائی وزیر خزانہ سے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا تعلق وسیب سے ہے مگر وسیب کا ایک بھی کام نہیں ہوا۔ ہم ہمیشہ سے طعنے سنتے آئے ہیں کہ وسیب کے جاگیردار ترقی نہیں چاہتے میں واضح کہتا ہوں کہ وسیب کیلئے آج بھی اگر کچھ نہیں ہوتا تو پھر سمجھا جائے گا کہ خطے کے جاگیردار اور تمندار وسیب کیلئے واقعی کچھ کرنا نہیں چاہتے اور ان کی سوچ ترقی کی بجائے تنزلی والی ہے، اس موقعہ پر میں نے مطالبہ کیا کہ جس طرح پنجابی زبان کی ترقی کیلئے لاہو رمیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویج (پلاک) بنایا گیا ہے اسی طرح کا ادارہ سرائیکی زبان کی ترقی کیلئے بھی بنایا جائے، الحمراء طرز کی آرٹس کونسل وسیب میں بھی ہونی چاہئے، میں نے یہ بھی کہا کہ سائونڈ ایکٹ کے باعث وسیب میں ادبی ثقافتی تقریبات ختم ہو چکی ہیں، آرٹسٹ اور سنگرز کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی تخلیقات چھاپنے والا کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہم سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں، وسیب میں تعلیم صحت اور روزگار کا براحال ہے، غربت و افلاس کے باعث وسیب میں خودکشیاں ہو رہی ہیں، کسی کی پرواہ نہیں، جب تک صوبہ نہیں بنتا اس وقت تک وزیر اعلیٰ ایک ایک دن ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بیٹھنا چاہئے تاکہ ان کو مسائل کا علم ہو سکے۔ مہمان خصوصی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے میری باتوں کا جواب نہ دیا البتہ اپنے خطاب میں کہا کہ شاعر ، ادیب قوموں کا ورثہ ہوتے ہیں شاکر شجاع آبادی ہمارے عہد کے بڑے شاعر ہیں، ہماری حکومت اہل قلم، آرٹسٹوں کیلئے پالیسی بنا رہی ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ شاکر شجاع آبادی کا مناسب علاج کیا جائے گا۔ مخدوم ہاشم جواں بخت نے یہ بھی کہا کہ میں وزیر اعلیٰ صاحب سے بھی بات کروں گا کہ سائوتھ کے شاعروں، ادیبوں کو ان کا حق ملے اور ہم بجٹ میں سائوتھ کا حصہ الگ سے مقرر کریں ،اس موقع پر انہوں نے علاج معالجہ کیلئے اپنی جیب سے شاکر شجاع آبادی کو پچاس ہزار روپے پیش کئے۔ صدر پریس کلب اور جنرل سیکرٹری نے شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ ہم اس طرح کی تقریبات منعقد کرتے رہیں گے اور جنوبی پنجاب کے مسائل کے حل کیلئے لاہور پریس کلب بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ فاصلوں کو کم کریں گے۔ تقریب کے اختتام پر میزبان فاروق شہزاد نے صدر لاہور پریس کلب کے آفس میں مکالمے کا اہتمام کیا، اس موقع پر شاکر شجاع آبادی سے سوالات کئے گئے، شاکر شجاع آبادی سے سوال کیا گیا کہ آپ ادب کو کیا سمجھتے ہیں، انہوں نے جواب دیا زندگی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ انتظامی صوبے کے حامی ہیں یا لسانی صوبے کے، شاکر نے کہا بات انتظامی یا لسانی کی نہیں، صوبے کی ہے، جس طرح دوسرے ہیں اس طرح سرائیکی صوبہ ہونا چاہئے، تفصیل بتاتے ہوئے شاکر شجاع آبادی نے کہا پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے نام خطے کی لسانی و ثقافتی شناخت پر ہیں تو سرائیکی وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک کیوں؟ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے صوبے کے قائد خسرو بختیار نے صوبے کے لسانی نام کو سختی سے مسترد کیا ہے اور انتظامی صوبے کی بات کی ہے، شاکر شجاع آبادی نے کہا اس کی بات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ہمارا قائد نہیں ہے، وہ کسی سرائیکی جماعت کا سربراہ نہیں سرائیکی صوبے کا سوال ان سے پوچھا جائے جنہوں نے سرائیکی زبان ، ادب، ثقافت اور سرائیکی سیاست کو زندگیاں دی ہیں مخدوم صاحبان تو کرسی اور اقتدار والے لوگ ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ