سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنما خواجہ غلام فرید کوریجہ ، نخبہ تاج لنگاہ، کرنل عبدالجبار عباسی ، پروفیسر شوکت مغل ، ملک اللہ نواز وینس ، ملک خضر حیات ڈیال ، عاشق بزدار اور مہر مظہر عباس کات نے عرس فرید کی تقریبات پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام قابل داد اور لائق تحسین ہے، اس سے خواجہ فرید کے لاکھوں عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ وسیب کے کروڑوں افراد کو خوشی ہوئی ہے۔ خواجہ فرید کے سالانہ عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات 13 دسمبر سے کوٹ مٹھن شریف ضلع راجن پور میں شروع ہو رہی ہیں۔ اندرون و بیرون ممالک سے لاکھوں عقیدت مند تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔دربار فرید پر زائرین کے لئے سہولتیں ہمیشہ نا پید ہوتی ہیں۔ حکومت نے جس طرح پابندیوں کے خاتمے کا مثبت قدم اٹھایا ہے، اسی طرح سہولتوں کی فراہمی کے لئے بھی توجہ دے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے طویل جدوجہد کی گئی۔ پیر آف کوٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کی قیادت میں سال ہا سال سے پر امن احتجاجی تحریک چلائی جا رہی تھی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہر جمعہ کو دربار فرید کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوتا، جس میں عرس فرید کی تقریبات پر عائد پابندیوں کے علاوہ وسیب کے دوسرے مسائل کا بھی تذکرہ ہوتا اور اگر دیکھا جائے تو چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر نشتر گھاٹ کا ستر سال پرانا مسئلہ بھی اسی جدوجہد کے نتیجے میں حل ہوا۔نشتر گھاٹ کی تعمیر کے لئے سرائیکی جماعتوں اور دوسری تنظیموں نے سینکڑوں احتجاجی مظاہرے ، لانگ مارچ اور دھرنے دیئے ، تب جا کر 2010 ء میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا نے فنڈز مہیا کئے ، نشتر گھاٹ کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا ، 2013 ء میں اسے چالو ہونا تھا مگر نئی حکومت کے آنے پر فنڈز روک دیئے گئے ، اپروچ روڈز کا محض 20 فیصد کام چھ سال سے لٹکا ہوا ہے ، اب جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں ہے جو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ناقد رہے کہ انہوں نے وسیب کے تمام وسائل اور فنڈز لاہور پر خرچ کئے، سوال یہ ہے کہ اب ان کو وسیب کے حقداروں کو حق دینے سے کس نے روک رکھا ہے؟نشتر گھاٹ جس کا نیا نام بے نظیر شہید بریج ہے کا تذکرہ میں اس لئے لے آیا ہوں کہ عرس کی تقریبات میں دوسرے مسائل کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ نشتر گھاٹ تھا، دریائے سندھ پر پل نہ ہونے کی وجہ سے زائرین کو 200 سے 300 کلو میٹر اضافی مسافت برداشت کرنا پڑتی۔ وسیب کے لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ اگر حکومت اپنی طرف سے فنڈز مہیا نہ کرے اور محض دربار فرید کی وقف اراضی کی آمدنی سے دریائے سندھ پر سونے کا پل بھی بنوا سکتی تھی مگر حکومتی ترجیحات میں یہ خطہ کبھی شامل نہیں رہا۔ دربار فرید صرف پاکستان ہی نہیں پورے ہندوستان کا واحد دربار ہے جس کی وقف اراضی سب سے زیادہ ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ ہے۔ دکانات ، مکانات اور دیگر املاک اس کے علاوہ ہیں۔ تمام جائیداد حکومت پنجاب کے محکمہ اوقاف کے قبضہ میں ہے۔ 1960 ء میں محکمہ اوقاف کے قبضہ سے پہلے چاچڑاں شریف میں خواجہ فرید محل اور محل میں موجود فرید لائبریری دنیا کی بہترین لائبریریوں میں شمار ہوتی تھی ، سینکڑوں قرآن مجید کے قلمی نسخہ جات و دیگر انتہائی قیمتی کتب موجود تھیں۔ ان میں سے بہت سے نسخے آب زر یعنی سونے کے پانی سے لکھے ہوئے تھے۔ آج وہاں لائبریری کا نام ونشان تک نہیں اور فرید محل جو کہ آثار قدیمہ میں شامل ہے کو محکمہ اوقاف نے ملی بھگت کے ذریعے اونے پونے کرائے پر دے رکھا ہے۔ چاچڑاں شریف لائبریری کے علاوہ کوٹ مٹھن میں دربار فرید سے ملحقہ لائبریری دنیا کی بہترین لائبریریوں میں شمار ہوتی تھی، آج لائبریری کی عمارت تو موجود ہے مگر وہاں ایک بھی کتاب دستیاب نہیں۔ وہ لائبریری جہاں سے علم کی روشنی پھیلتی تھی ، آج نشئیوں کا مسکن ہے۔ یہ تو بھلا ہو سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ کا کہ انہوں نے اپنے طور پر خواجہ فرید میوزیم بنا رکھا ہے جس میں کتابوں کے علاوہ خواجہ فرید کے دوسرے تبرکات کی بھی زیارت ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وسیع املاک اپنے پاس رکھنے والے محکمہ اوقاف دربار فرید کے مسائل کی طرف کب متوجہ ہوگا۔کوٹ مٹھن میں داتا کمپلیکس لاہور کی طرح خواجہ فرید کمپلیکس کی شدید ضرورت ہے ، محمد خان جونیجو کے دور میں کوٹ مٹھن کے لئے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی منظور ہوئی، مگر جونہی دور تبدیل ہوا یونیورسٹی بھی اسلام آباد چلی گئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کوٹ مٹھن میں یونیورسٹی قائم کی جائے اور اس کے ساتھ زرعی کالج ، میڈیکل کالج اور کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کہنے کو رحیم یار خان میں گورنمنٹ کالج کو خواجہ فرید کالج کا نام دیا گیا اور رحیم یار خان میں نئی انجینئرنگ یونیورسٹی بھی خواجہ فرید کے نام سے بنائی گئی ہے ، مگر صرف نام کافی نہیں یہ سب کچھ کوٹ مٹھن میں بننا چاہئے اور یونیورسٹی میں وہ شعبہ ضرور ہونا چاہئے جو خواجہ فرید کی تعلیمات اور انکے فکر و فلسفے کو عام کرے۔ کوٹ مٹھن کو تحصیل کا درجہ دینے کا مطالبہ جائز اور بر حق ہے۔ اسی طرح ایوان اقبال لاہور کی طرز کا ادارہ بھی نہایت ضروری ہے کہ علامہ اقبال کی بہ نسبت خواجہ فرید وہ حریت پسند شاعر ہیں جنہوں نے انگریز راج کے عین عروج کے وقت کہا "اپنی نگری آپ وسا توں ، پٹ انگریزی تھانے”۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ