عظیم باپ کی عظیم بیٹی محترم بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ءکو پیدا ہوئیں۔ 15 سال کی عمر میں او لیول امتحان پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکا چلی گئیں جہاں 1969 سے 1973ءتک ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں ، جہاں انہوں نے 1973 ءسے 1977 ءتک مارگریٹ ہال آکسفورڈ میں فلسفہ، سیاسیات اور اکنامکس کے مضامین پڑھے۔ انہوں نے آکسفورڈ سے انٹرنیشنل لاءاور ڈپلومیسی کے مضامیں کا کورس کیا۔ 1976 ءمیں انہیں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ پہلی ایشیائی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ 18 دسمبر 1987ءکو ان کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی ، ان کے تین بچے ہیں جن کے نام بلاول ، بختاور اور آصفہ ہیں۔ ضیاءالحق کے مارشل لاءاور بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی تاریخی اور جمہوری جدوجہد تاریخ کا بہت بڑا باب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹونے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی سے 21 جون 1978ءکو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو میری سب سے پیاری بیٹی کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا :۔”ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی ( جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اس طرح کی تکلیف میں مبتلا ہے ) اس کی جان بچانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے ، یہ رابطہ سے زیادہ بڑا معاملہ ہے محبت و ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے ؟تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی، تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ، ان دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو تاکہ ان دونوں کا انضمام ہو سکے۔پیاری بیٹی !میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ، صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے ، سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔ برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کامیابیاں انعام و کرام کی مستحق ہیں ، جن کے ذریعہ مصیبت زدہ عوام تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں جن کے باعث کسی دیہاتی کی غمناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتی ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں پیاری بیٹی ! میں اس جیل کی کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا لیکن میں آپ کو عوام کا ہاتھ تحفہ میں دیتا ہوں۔ میں تمہارے لئے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں ، میں تمہیں ایک مشہور نام اور مشہور یاداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں ، تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور طاقت ور بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرو۔ میری پیاری بیٹی! کیا تمہیں یاد ہے 1957ءکے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں، تو ہم ” المرتضیٰ“ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صبح کا وقت موسم بڑا خوشگوار تھا۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ، ایک بیرل 22 اور دوسرا 480 کا تھا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آ گرا تو تم نے چیخ مار دی۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا۔ تم برابر چیختی رہیں۔ تم نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ایک مردہ طوطے نے 1957ءکے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رلا دیا تھا۔ 21 سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک جوان لڑکی بن گئی ہے۔ جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے۔ حقیقتاً تم نے بلا شبہ یہ ثابت کر دیا کہ بہادر سپاہیوں کا خون تمہاری رگوں میں موجزن ہے۔ “ مجھے معلوم نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شاعرہ تھیں اور اگر شاعرہ تھیں تو کتنی بڑی شاعرہ تھیں ؟ انگریزی ادب میں ان کی ایک طویل نظم نے پوری دنیا میں شہرت پائی۔ یہ نظم محترمہ نے جلا وطنی کے دوران لکھی ، محترمہ نے اس نظم کے ذریعے اپنی ماں دھرتی سے اظہار محبت کرتے ہوئے لکھا کہ میرے لاڑکانہ میں گلابوں کی خوشبو رچی ہے، لاڑکانہ میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو مجھے وہاں کھینچ رہی ہے ، میرے ابو کا نام زندہ رہے گا کہ وہ مرد قلندر اور عوام دوست تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طویل نظم میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ میں گو کہ عرب دیس میں رہ رہی ہوں ، محل بھی ہیںمگر میرا دل بے تاب ہے کہ میں اپنے وطن کے مظلوموں کی جھونپڑیوں میں جاﺅں ، ایک خاص بات جو میں یہاں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محترمہ کی طویل نظم میں سے چار لائنوں کا مفہوم یہ ہے کہ اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان ، کیچ مکران ، ملک ملیر مہران اور شہر مردان سے دور ہو۔محترمہ کے خون سے سرائیکی وسیب کی محبت شامل تھی۔ہمارے دوست حاجی صدیق موہانہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ بھٹو خاندان کے بزرگوں کا تعلق مظفر گڑھ سے تھا۔ اس لیے وہ بار بار سرائیکی سرائیکی کرتے تھے۔ جس طرح سندھ اور سرائیکی وسیب کی تاریخ بہت قدیم ہے اسی طرح سندھ سرائیکی کی تہذیبی ، ثقافتی جغرافیائی سانجھ بھی بہت پرانی ہے۔ سندھ سرائیکی کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے ان کی زبان ، ثقافت ایک رہی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے سندھ سرائیکی علاقوں میں بسنے والی قومیں اور ذاتیں نا صرف ایک ہیں بلکہ ان کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتہ داریاں بھی ہیں۔ دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی طرح کی تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی مسائل کا شکار ہیں، دونوں خطے زمانہ قدیم سے حملہ آوری کی زد میں رہے اب بھی دونوں خطوں کے لوگ غیر محفوظ حملہ آوری کی زد میں ہیں۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان دکھ کی سانجھ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود ہے۔ اسی سانجھ نے دونوں کو اپنائیت کے دھاگے میں میں پرو رکھا ہے۔ اسی بات کا سب سے زیادہ احساس دیدہ ور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو اور ا±ن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کوتھا۔ انہوں نے جس طرح اپنی ماں دھرتی سندھ سے محبت کی ا±سی طرح سرائیکی وسیب سے بھی محبت کی۔ دونوں کی شہادت پر جتنا دکھ صدمہ اور درد سندھ میں محسوس کیا گیا اتنا ہی سرائیکی وسیب میں آج تک محسوس کیا جا رہا ہے۔ میں سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا اور یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا پیپلز پارٹی سے سیاسی اختلاف ہے اور میں اس بات کا ہمیشہ اظہار کرتا رہتا ہوں۔ ہاں تو ! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ موجودہ پیپلزپارٹی سے اختلاف کے باجود مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں کہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں انسانوں کے دلوں پر آج بھی بھٹو کی حکومت قائم ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ