سنسکرت کے شاعر اور مفکر بھرتری ہری کہتے ہیں:
”فقیر زمین کے فرش پر سو کر اسی خواب شیریں کا مزا لیتا ہے
جو راجاؤں کو نرم و خوشنما سیج پر ملتا ہے۔
فقیر کا بازو نرم سرہانہ (تکیہ) کھلا آسمان شامیانہ، مہکی ہوا پنکھا اور آسمان کا جگمگاتا ہوا چاند قندیل کا کام دیتا ہے۔
وہ بیراگ کی رفیقہ حیات کی گرم آغوش میں وہی مسرت حاصل کرتا ہے
جو شہنشاہ کو اپنی ملکہ کے وصال سے ہوتی ہے“
فقیر واصف علی واصف کی فکر پر ہم کیا بات کر سکتے ہیں۔ لفظ فقیر چار لفظوں کا محتاج ہے۔
ف سے فناہ ۔ ق سے قناعت ، ی سے یاد اور ر سے ریاضبت۔
فکر واصف اور پاکستان پر بات کرنے سے قبل یہ بھی سن لیجیے!
خلیفہ ہارون الرشید تشریف فرما تھے ان کی مجلس میں اس دور کے مشہور واعظ ابن سماکؒ بھی موجود تھے۔ اچانک ہارون الرشید کو پیاس محسوس ہوئی اور ایک گھونٹ پانی طلب کیا۔
ابن سماکؒ بولے ! ”عالی جاہ! اگر آپ کو پانی کا یہ گھونٹ نہ دیا جائے تو کیا آپ اپنی آدھی بادشاہت کے بدلے میں اسے خرید لیں گے۔ ہارون نے کہا :“ ضرور۔۔۔۔۔
جب ہارون پیاس بجھا چکا تو ابن سماکؒ دوبارہ گویا ہوئے: اگر یہ پانی جسم سے باہر نکلنا بند ہو جائے تو کیا اس کے اخراج کے لئے آپ اپنی نصف بادشاہت دینے کو تیار ہو جائیں گے۔
بادشاہ بولا: ”ہاں بے شک ۔۔۔۔۔۔“
ابن سماک ؒ نے فرمایا: ”تب ایسی بادشاہت سے کیا حاصل جس کی قیمت پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ ہو ۔“
حضرات گرامی! دنیاوی بادشاہت کی بس یہی اوقات ہے۔ بندہ تو وہ ہے جو خود پر حکمرانی کرے اور جو انسان اپنی لگام اپنے ہاتھ میں رکھ کے چلتا ہے وہ دلوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
فقیر واصف علی واصف کی فکر بھی یہی ہے۔ فقیروں کو دنیاوی تاج و تخت کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ آپ واصف صاحب کی تحریروں میں ان کا نظریہ اورفکر تلاش کر سکتے ۔
آپ فرماتے ہیں:
”جمہوریت کا سفر جلسوں کا سفر ہے،
جلوسوں کا سفر ہے ، تقریروں کا سفر ہے، جھوٹ سچ ملا کر بولنے کا سفر ہے۔ حکومت سابقہ کی مخالفت کا سفر ہے، گٹھ جوڑ اور توڑ پھوڑ کا سفر ہے۔ جس طرح امن ، دو جنگوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے، اسی طرح کہیں جمہوریت مارشل لاءاور مارشل لاءکے درمیانی عرصے کا نام نہ ہو۔ جمہوریت جو ہر شناس نہیں۔ جمہوریت صرف مقدار کی قائل ہے معیار کی نہیں۔
جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے، منصور کو سولی چڑھاتی ہے ، عیسٰی کا احترام نہیں کرتی۔
جمہوریت کے ذریعے کوئی فکر ، امام ، دانشور ، عالم دین ، ولی یا مرد حق آگاہ برسراقتدار نہیں آ سکتا۔
ایک اور جگہ واصف صاحب تحریر کرتے ہیں:
”مال و دولت کے سہارے حکومتیں کرنے والے آخر کار ندامتوں اور رسوائیوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ دولت عزت پیدا نہیں کرتی ، دولت خوف پیدا کرتی ہے اور خوف پیدا کرنے والا انسان معزز نہیں ہو سکتا۔ غریبی محتاج رہنے کی وجہ سے خالق کے در پر سرنگوں رہتی ہے اور یوں غریبی قرب حق کا ایک ذریعہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان غریب ہو جائے یا اسے غریب رہنے دیا جائے۔ ایک سماج میں امیر اور غریب کے درمیان جتنا فاصلہ بڑھتا جائے گا ، اتنی ہی اس سماج میں کرپشن بڑھے گی۔ وہ معاشرہ تباہ ہو جائے گا جہاں غریب کو نظر انداز کر دیا گیا۔ غریب ہی امیر کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔فرعون مال اور حکومت کے باوجود دین اور دنیا میں برباد ہو جاتا ہے، موسیٰ علیہ السلام مالی اور اختیار میں کمی کے باوجود اللہ کے قرب سے نوازے گئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پیسہ نہیں بچا سکتا بدنامیوں سے، بے عزتیوں سے ، دشمنوں سے ، موت سے ، پھر پیسہ کیا کرتا ہے؟ صرف نگاہ کو آسودہ کرتا ہے اور یہ آسودگی کو مردہ کر دیتی ہے، بے حس بنا دیتی ہے اور آدمی کثرت مال کے باوجود تنگی خیال میں مبتلا ہو کر اذیت ناک انجام سے دوچار ہو جاتا ہے۔
واصف علی واصف وطن عزیز میں ایک ایسے نظام کے خواہاں ہیں جہاں لوگ امن و محبت سے سرشار ہوں۔
وہ اخوت اور بھائی چارے کی فضاءپسند کرتے ہیں۔ وہ اس دھرتی پر مساوات کا نظام دیکھنے کے تمنائی تھے۔
وہ کہتے ہیں: حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ کسی طبقے کے پاس بے مصرف دولت جمع نہ ہو ۔ اور کوئی طبقہ محروم اور مظلوم نہ رہے اگر ایسا نہ ہو تو اس کا فیصلہ شاید ایک ایسا مستقبل دے جس پر ہمارا اختیار نہ ہو۔ خدا اس وقت سے بچائے جب مظلوم اور بے زبان خطرہ گویائی کے طلسمات شروع کرے یہ خطرہ ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر سکتا ہے اور اس سے پہلے کہ غریب آپے سے باہر ہو اس کی غریبی ٹالنے کی کوشش کی جائے ، اس کا خیال کیا جائے ، بڑے بڑوں کی بڑی بڑی خدمت کرنے کی بجائے چھوٹے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورت پوری کر دی جائے ان کے کچن سے بھی دھوئیں اور خوشبوئیں اٹھیں۔ غریب کو خدا کے لئے حرف نصیحت نہ دو۔ اسے کلمے نہ پڑھاﺅ ، اس کا دکھ بانٹو اگر غریب کو مفت دوائی نہ ملی تو تمہارے بڑے بڑے ہسپتال بیمار ہو جائیں گے، تمہارے خزانوں میں کیڑے پڑ جائیں گے، دیمک لگ جائے گی ابھی وقت ہے کہ سوچا سمجھا جائے ، ہوش کیا جائے۔“
آپ نے دیکھا فقیر اپنے لئے کچھ نہیں چاہتا البتہ وہ اپنے جیسے دیگر سبھی انسانوں کے لئے سکھ اور چین کا متلاشی ہوتا ہے۔ فقیر رنگ ، نسل ، زبان اور دیگر ہر قسم کے امتیازات سے بالا ہو کر ہر کسی کی خیر مانگتا ہے۔
جس دھرتی پر وہ رہتا ہے وہ اس کی خیر چاہتا ہے۔ مٹی سے محبت فقیر کا اثاثہ ہے۔
واصف علی واصف کی مملکت پاکستان سے محبت ان کی تحریروں میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہے۔
ان کی دعا بھی یہی ہوتی تھی:
” یا اللہ اس قوم کے دن دیانت دارانہ محنت میں گزریں ، اس قوم کو رزق حلال سے متعارف کرا، اس کی راتوں کو اپنے ذکر سے آباد رکھ۔ جس قوم سے نالہ نیم شب اٹھ جاتا ہے اس سے سکون اٹھ جاتا ہے۔ یا اللہ ہم میں ایک عظیم قوم بننے کی صفات پیدا کر الٰہی ہمیں اپنے خوف کے علاوہ ہر قسم کے خوف سے آزاد رکھ۔ آمین
اے فقیر سے محبت کرنے والو! فقر سے ناطہ جوڑو اور وہاں کامل مرشد کے بغیر راہ ہاتھ نہیں آتی۔
ان اشعار کے ساتھ اجازت:
نفس بڑا ای ڈاہڈا رچھ اے قابو وچ نہ آوے
اوھنوں جان قلندر کامل نتھ اینوں جو پاوے
تلکن راہواں لنگھ جائی دا پیر سنبھل کے دھریاں
بچے فصل فقیری تنے پلدے راکھی کریاں
(سمینیار بسلسلہ فکر واصف اور پاکستان میں پڑھا گیا )
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ