پروفیسرڈاکٹر محمد امین نے ہمیں اپنی کتاب” انسانم آرزوست“ گزشتہ برس اکتوبر میں عطا کی تھی۔ہم نے کتاب کا سرسری مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ سرسری مطالعے والی کتاب نہیں۔اس کا ایک ایک جملہ ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور نئے جہانوں سے روشناس کراتا ہے۔ انسانم آرزوست کے پیش لفظ میں ڈاکٹر محمد امین نے تفصیل کے ساتھ اس مختصر سی کتاب کا تعارف کروایاہے۔ 64صفحات کی یہ کتاب چالیس مجالس پر مشتمل ہے۔ اس کا مرکزی کردار ابوالحسن ہے جو مختلف کرداروں کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ یہ تصوف میں بات سمجھانے کا ایک انداز ہے اور یہ انداز اختیارکرکے صوفیا کی محفلوں میں مرشد اپنے سالکین سے گفتگو کرتا ہے اور سوال جواب ہوتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال حضرت فرید الدین عطار کی کتاب ” منطق الطیر“ ہے جس میں پرندوں کے مکالمے کے ذریعے بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈاکٹر محمد امین نے وہی انداز تحریر اور اسلوب اختیار کیا اور آج کے مسائل کو اس کتاب کے ذریعے بیان کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں لکھاری کسی اور کی زبان میں اپنا مدعا بیان کرسکتا ہے۔ڈاکٹر امین نے یہ اسلوب اختیار کرکے ایسے بہت سے معاملات اور مسائل بیان کردیئے ہیں جو عام طرز نگارش میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔اس کتاب میں مجالس کی تعداد چالیس رکھی گئی ہے ۔یہ بھی تصوف کی ایک صورت ہے اور چالیس کے ہندسے کو صوفیا کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال چلہ کشی بھی ہے۔
ڈاکٹر امین کاتخلیق کردہ کردار ابوالحسن (جو خود ڈاکٹر امین ہیں)مختلف زمانوں کا سفر کرتاہے ،مختلف کرداروں سے ملتا ہے اوران کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے۔ابن الحکم ،کنفوشیس ،نطشے،دائیوجے نیز سے اس کے مکالمے ہوتے ہیں اوروہ انسان کی تنہائی کو موضوع بناتا ہے۔اس کتاب کاایک ایک جملہ ایسا ہے کہ جو ہم پر فکر کے نئے جہان آباد کرتا ہے ۔ڈاکٹر محمدامین کے مطالعے اور زندگی کے تجربات کا مکمل نچوڑ اس کتاب میں موجودہے۔ ایسا ہی ایک تجربہ انہوںنے نظم میں بھی کیا اور ان کی نئی کتاب لوح مسطوربھی ایسی ہی نظموں پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اپنے کچھ خواب منظوم کیے ہیںاور ان خوابوں میں مختلف ہستیوں کے ساتھ مکالمہ کیاہے۔جیسے اس کتاب میں انہوں نے بہت سی ان کہی باتیں کرداروں کے ذریعے بیان کیں۔ اسی طرح لوح مسطور میں خوابوں کے ذریعے اپنا مافی الضمیر قاری تک پہنچایاہے۔ مجالس کے اس مجموعے سے کچھ اقتباسات ا پ کی نذرکرتاہوں جن کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو کس خوبصورت انداز میں بیان کیاہے۔جب تم دیکھتے ہو تو حقیقت ہے ،جب سوچتے ہو تو خیال ہے۔بس حقیقت اورخیال میں یہی فاصلہ ہے۔ آنکھیں کھلی ہیں تو شہادت ہے ،آنکھیں بند ہیں تو غیب ہے۔
عورت مرد کو دولت کمانے والی مشین سمجھتی ہے حالانکہ وہ دل بھی رکھتا ہے۔مرد عورت کو جسم سمجھتا ہے حالانکہ وہ دل بھی رکھتی ہے۔
انسان ایسی چیز کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہے جو اس کی نہیں ہے۔
انسانوں کے دکھ سکھ انسانوں سے وابستہ ہیں اور وابستہ رہیں گے صرف مشین انسان کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔مشین کا دل نہیں ہوتا۔
ہرشخص گنتی میں مصروف تھا اور پریشان تھا کہ اس کی گنتی بڑی مشین کی گنتی سے نہیں ملتی۔بچے بھی گنتی کی مشینوں سے کھیل رہے تھے ۔
آوازوں کے شور پر مت جا ،اپنے باطن کی آوازسن ،معانی تو تیرے باطن میں چھپے ہیں باقی سب شور ہے۔
اخلاقی فساد کا یہی سبب ہے کہ لوگوں میں حفظ مراتب نہیں رہا،اس لیے وہ اپنے فرائض بھول گئے اور دہرے معیاربن گئے، اپنے لیے اور، دوسروں کے لیے اور ۔
وقت تیری کیفیت کے تابع ہے تو تکلیف میں ہے تو وقت مشکل ہے ،توخوش ہے تو وقت آسان ہے۔
دکھ کی بات ہے کہ ذہانت نے ہمیشہ کبھی دولت اور کبھی طاقت کی غلامی کی ہے ،جوذہانت ان کی غلامی نہیں کرتی وہ امرہوجاتی ہے ۔
ریاستی ادارے ریاست پر حاوی ہوگئے ہیں،اب جمہوریت اکثریت کی نہیں اقلیت کی حکمرانی ہے ۔
بیسویں صدی کاالمیہ ہے کہ فکر نے انسان کی نفی کی ہے ۔
ہرشخص دوسرے کوقتل کررہاہے اور لوگ پوچھتے پھررہے ہیں کہ قاتل کون ہے ۔
علم انسان کے لیے ہے ،کیا عجیب بات ہے کہ علم سے انسان کو خارج کیاجارہاہے۔
یہاں سب گمشدہ لوگ اپنی ہی پہچان کی گواہی میں سرگردہ ہیں ۔
عورت محبت کے لائق ہے ،عورت رب کے حسن کا اظہارہے ۔
شہر میں لوگوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے ہیں ،کبھی وہ مختلف لگتے ہیں اور کبھی ایک سے ۔
ہم نہیں جانتے کیا ہونے والا ہے اس لیے تدبیر کرتے ہیں،جب تدبیر میں ہارجاتے ہیں تو تقدیر کاشکوہ کرتے ہیں ۔
ہر عمارت کے اندر سانپ ہی سانپ تھے ،کرسیوں اور میزوں پر سانپ براجمان تھے۔
اس کرہ ارض پر انسان کی طویل غلامی کادورشروع ہونے والا ہے ۔
یہ زمین تمام انسانوں کی ملکیت ہے ،مگر اس زمین پر بے گھرلوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی انسان کے لیے عذاب بن جائے گی ،اس سے بچو۔
بشکریہ : سب نیوز اسلام آباد )