عباس تابش کی لالہ موسی تقرری اس لحاظ سے بھی میرے لئے بہت زیادہ خوشی کا باعث تھی کہ ہم دونوں کو اتنے عرصہ کے لئے اکٹھے رہنے کا موقع میسر آرہا تھا۔ کاوش بٹ صاحب بھی از حد خوش تھے۔ چنانچہ اب ان کی کیری کی اسداللہ سمیت تمام نشستیں پوری ہوچکی تھیں ۔۔ اور ہم حسب معمول ہر شام دربار ہوٹل پر اکٹھے ہوکر آوارہ گردی کے لئے نکل جاتے تھے۔۔ عباس تابش نے اپنی رہائش کے لئے چاندنی چوک لالہ موسی میں ایک عمارت کی دوسری منزل پر کمرہ کرائے پر لے لیا تھا۔ جہاں میں اپنی ٹریننگ کی مصروفیات سے فارغ ہوکر آجاتا تھا۔۔ اور پھر خوب شعر پر گفتگو ہوتی تھی۔۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہم دونوں شعر کہنے کے عشق میں مبتلا تھے ۔ اور عباس تابش کا تو کمال یہ تھا کہ وہ ہمہ وقت شاعری میں ڈوبا رہتا تھا۔۔ اس کی ایک ہی تمنا تھی کہ زندگی شاعری میں بسر کی جائے۔۔ چنانچہ وہ مجھے بھی ہر وقت شعر کہنے پر ” اکساتا“ رہتا تھا۔۔ ۔ ان دنوں غیر ادبی مباحث کا رواج نہیں تھا یا پھر شاید ہمارے لئے وہ کچھ زیادہ اہم نہیں تھے۔۔ یہی وجہ ہم دونوں کے بیچ شخصیات کی نسبت شعر کا حوالہ زیادہ اہم تھا۔ اور یا پھر ہم اپنے ذاتی معاملات پر بات چیت کرتے تھے۔ اور مجھے آج یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار نہیں جب میں اپنی ذ اتی زندگی کے بہت سے مسائل سے گھبرا جاتا تھا تو عباس تابش میرا حوصلہ بندھاتا تھا۔ وہ بلا کا حوصلہ رکھنے والا شخص ہے ۔ میں نے اسے بہت سے مشکل حالات کا مقابلہ نہایت پامردی سے کرتے دیکھا ہے۔۔ ۔ عباس تابش کی لالہ موسی آمد یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں مزید اضافے کا سبب بن گئی۔ کاوش بٹ صاحب ہر سال 31 دسمبر کی شام یہاں مشاعر ے کا اہتمام کرتے تھے ۔۔ جس میں گردونواح کے شہروں سے بھی شعرا کو مدعو کیا جاتا تھا۔۔ ۔ اور اتفاق سے میرے تربیت کے قیام کے عرصہ میں یہ تاریخ آگئی ۔۔ چنانچہ بٹ صاحب نے میرے اور عباس تابش کی وجہ سے اس مشاعرے کو لاہور کے شاعروں تک پھیلا لیا ۔۔ مجھے یاد ہے اس مشاعرے میں لاہور سے اسرار زیدی اور سرفراز سید تشریف لائے تھے۔۔ جبکہ جہلم اور گجرات کے شعرا بھی شریک ہوئے اسی مشاعرے میں میر ی ملاقات اپنے جیسے نوجوان شاعر مسرت ہاشمی سے ہوئی۔ فنون میں غزلوں کی اشاعت کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے سے آگاہ تھے۔ ان دنوں ابھی مسرت ہاشمی لالہ موسی شفٹ نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے آبائی شہر جہلم میں رہائش پزیر تھے۔ ۔۔ بلدیہ لالہ موسی کے ہا ل میں منعقد ہونے والا یہ مشاعرہ اپنے حسن انتظام کے لحاظ سے بہت عمدہ تھا۔ شہر کے چیدہ چیدہ ادب ذوق لوگ موجود تھے۔ اس خطے میں یہ میرا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا اتفاق تھا۔ اور شاید عباس تابش کے لئے بھی ایسا ہی تھا۔۔ مشاعرے کے اختتام پر بٹ صاحب نے جب اعزازیہ کا لفافہ دیا تو میں نے لینے سے انکار کردیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی اعزازیہ صرف باہر سے آنے والے مہمان شعرا کے لئے تھا جبکہ میں تو لالہ موسی ہی سے شریک ہوا تھا لیکن کاوش بٹ نے زبردستی یہ کہہ کر لفافہ میری جیب میں ڈالا دیا۔ کہ تم سمجھ رہے ہو یہ پیسے میں اپنی جیب سے تمھیں دے رہا ہوں۔ ہر گز نہیں ۔اور پھر انہوں نے ایک بڑی مزیدار بات کہی ۔۔ وہ کہنے لگے شہزاد صاحب اللہ تعالی نے دو طرح کے لوگ پیدا کئے ہیں ایک کو ذہن عطا کیا ہے اور دوسرے کو پیسہ ۔۔ لہذہ ذ ہین لوگوں کی ذ مہ دری ہے کہ وہ پیسے والوں کی جیب سے پیسہ نکلوائیں اور ذ ہین لوگوں میں تقسیم کریں۔ ۔ چنانچہ میں تو یہ پیسہ ان کی جیب سے نکلوا کر اپنے ذ ہین طبقے میں تقسیم کر رہا ہوں۔ جہلم وگجرات کے ادیبوں شاعروں میں گزرنے والے یہ دو مہینے بہت تیزی سے گزر گیے مری تربیت کا عرصہ گز ر چکا تھا اب مجھے واپس اپنے علاقے میں جانا تھا۔ لیکن یہ علاقہ اور یہاں کا ادبی ماحول اتنا شاندار تھا کہ میں نے اپنے جی میں ٹھان لی تھی کہ دوران سروس اگر مجھے موقع ملا تو میں یہاں ضرور اپنی پوسٹنگ کرواوں گا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں لالہ موسی چھوڑ رہا تھا اور کاوش بٹ نے مجھے الوداعی کھانا دیا تو میرےدل میں اداسی اور میری آنکھوں میں آنسو تھے
فیس بک کمینٹ