ڈیرہ غازی خان جانا اس قدر دشوارہوگا یہ ہم نے کبھی سوچابھی نہ تھا۔ملتان سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع اس شہر میں تو ہم بسا اوقات کوئی پروگرام طے کیے بغیربھی چلے جاتے تھے۔اور یہ آج سے نہیں تھا۔ ہمارا یہ معمول اس وقت بھی تھا جب کیف انصاری اس شہر میں موجودتھے۔کیف انصاری ہمیشہ سے ڈیرہ غازی خان میں شاعری کا مرکزی حوالہ رہے ۔ کیف صاحب کا نام تو صرف ادبی حلقوں میں معروف ہے ۔یہ درویش شاعر بہت خوبصورت شعر کہنے کے باوجود شعر وادب میں وہ پذیرائی حاصل نہ کرسکے جو محسن نقوی کے حصے میں آئی۔محسن نقوی سے یاد آیا کہ ڈیرہ غازی خان میں توہمیں محسن نقوی نے بھی بلایاتھا۔اورکسی مشاعرے میں نہیں اپنے جنازے میں بلایاتھا۔ہمیں یاد ہے کہ ہم شاکرحسین شاکر کے ہمراہ محسن نقوی مرحوم کے جنازے میں شرکت کے لیے خاص طورپر ڈیرہ غازی خان گئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں بارہا ڈیرہ غازی خان جانے کا موقع ملا۔ہم پہلی بار اس وقت ڈیرہ غازی خان گئے جب فاروق لغاری 1993ءمیں پاکستان کے صدرمنتخب ہوئے تھے۔ ڈیرہ غازی خان شہر سے پہلے ان کے لیے ایک ہیلی پیڈ بنایاگیاتھا جہاں سے انہیں جلوس کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان اور پھر چوٹی زیریں لے جایاگیا۔اس جلوس میں ہمارے ساتھ قسور سعید مرزا بھی موجودتھے۔اورہمیں یاد ہے کہ ہم قسورسعید مرزا کے ساتھ ہی ملتان سے ڈیرہ غازی خان گئے تھے۔اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ بعد میں ہمیں ڈاکٹر عباس برمانی بھی چوٹی زیریں بلائیں گے۔اور ایک مرتبہ نہیں باربار بلائیں گے۔ کبھی شاکرحسین شاکر ،سبطین رضا لودھی اورحامد رضا کے ہمراہ اورکبھی مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ۔اور پھرہم تارڑ صاحب کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے ایک رات گزاریں گے اور وہاں موہانوں سے پہلی بار وہ گیت سنیں گے جو بعد کے دنوں میں بے پناہ مقبول ہوا۔”ساڈا سجنا وے دور ٹھکانہ ۔۔۔ اساں واپس مڑ نہیں آنا“۔
ڈیرہ غازی خان شہر کی بہت سی تقریبات میں ہم نے مہمان کے طورپر شرکت کی ۔کبھی کسی کتاب کی تعارفی تقریب میں شریک ہوئے تو کبھی ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسل کے مشاعروں میں شرکت کی۔ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسل کے ایک مشاعرے میں ہمیں نیاز لکھویرا نے اس وقت مدعو کیا تھا جب وہ کچھ عرصے کے لیے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کے طورپر ڈیرہ غازی خان آئے تھے۔ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسل کی پرانی عمارت میں منعقد ہونے والے اس مشاعرے میں ہمارے ساتھ کیف انصاری بھی موجودتھے۔اور رات گئے جب مشاعرہ ختم ہوا تو ڈاکٹر عباس برمانی نے ہمیں ڈیرہ غازی خان سے ملتان کی بس پر سوار کرایاتھا۔پچھلے برس بھی اسی آرٹس کونسل میں ایک بہت خوبصورت مشاعرہ منعقد ہواتھا جس میں ہم ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی دعوت پر شاکرحسین شاکر کے ہمراہ شریک ہوئے تھے۔
۔اور ایک مشاعرہ تو وہ تھا جس میں احمد فراز بھی موجودتھے اورہمیں اسی مشاعرے میں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے شبلی فراز بھی ان سے ملاقات کے لیے کوئٹہ سے ڈیرہ غازی خان آئے ہیں تو ہم یہ جان کر بہت حیران ہوئے کہ فوج کے خلاف نظمیں کہنے والے احمد فراز کا بیٹا بھی فوج میں ہے۔اب یہی شبلی فراز پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماﺅں میں شامل ہیں ۔
یہ سب باتیں ہمیں ڈیرہ غازی خان کے ذکر پر یاد آگئیں اور ہم نے وہ تمام سفر ایک ہی سانس میں بیان کردیئے جوہم نے بہت سہولت کے ساتھ کیے تھے۔ اس مرتبہ ڈیرہ غازی خان کے سفر نے جو طوالت اختیار کی وہ حیران کن بھی تھی اور پریشان کن بھی۔ ہم کئی ماہ سے یہ تو سن رہے تھے کہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے درمیان سڑک کو دورویہ کرنے کا کام جاری ہے اور راستے میں ٹریفک بھی بلاک رہتی ہے۔سو معمول کا وہ راستہ جو ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجاتاتھا اب تین گھنٹے پر محیط ہوچکا ہے۔ کچھ دوستوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ہمیں ہیڈ محمد والا سے تونسہ بیراج کے راستے ڈیرہ غازی خان کاسفر کرنا چاہیے کہ آج کل ڈیرہ غازی خان کے لیے یہی راستہ مناسب ہے۔لیکن شاید ہم نے ملتان سے ڈیرہ غازی خان تک زیرتعمیر سڑک والا راستہ اس لیے اختیار کیا کہ ہمیں مصطفی زیدی کا وہ شعر تمام راستے دہرانا تھا جس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے قریب واقع تفریحی مقام فورٹ منرو میں قیام کے دوران کہا تھا
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
راستے کی دشواریوں کا ذکریہیں ختم کرتے ہیں اور آپ کو اس تقریب میں لیے چلتے ہیں جس میں شرکت کے لیے اسی دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے امجد اسلام امجد ،زاہدفخری اور شوکت فہمی بھی ہم سے پہلے ڈیرہ غازی خان پہنچ چکے تھے۔ اس مشاعرے کی دعوت ہمیں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے دی تھی جو ڈیرہ غازی خان میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم آنچل کی سربراہ ہیں اور ڈاکٹر ہونے کے ناطے پی ایم اے ڈیرہ غازی خان کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔پی ایم اے اورغازی میڈیکل کالج نے ماہرین طب کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر اس مشاعرے کا اہتمام آنچل کے تعاون سے کیاتھا۔ملتان سے ہمارے ساتھ شاکر حسین شاکربھی اس مشاعرے میں شریک ہوئے۔مشاعرے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اور پی ایم اے ڈیرہ غازی خان کے صدر ڈاکٹر عبدالرحمن قیصرانی نے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیئے۔اس موقع پر مہمان شعراءکے علاوہ عزیز شاہد،پروفیسر شریف اشرف،سلیم فراز،سعیدہ افضل، ڈاکٹرشاہینہ نجیب کھوسہ، ایمان قیصرانی، بشری قریشی،نیئر رانی شفق،پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، پروفیسر عمران میر،مصطفی خادم، شیراز غفور اور محبوب جھنگوی نے بھی کلام سنایا۔
غازی میڈیکل کالج کا پنڈال سامعین سے کھچا کھچ بھراہواتھا۔کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سعید احمد میزبان کی حیثیت سے خود بھی متحرک دکھائی دیئے۔اوپن ایئر میں منعقد ہونے والا یہ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیامشاعرے کے رنگ نمایاں ہوتے چلے گئے۔ ڈیرہ غازی خان سمیت مضافات کے شہروں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں تقریبات رات گئے تک جاری نہیں رہتیں ان شہروں میں چونکہ تفریح کے مواقع زیادہ نہیں۔اس لیے لوگوں کو رات گئے تک جاگنے اور محفلیں سجانے کی عادت بھی نہیں۔لیکن اس روز سامعین کو رات گئے تک اس محفل میں بیٹھنا تھا۔تمام شاعروں کو توجہ سے سننا تھا ۔اچھے شعروں پر داد دیناتھی اور وہ یہ سب کچھ کسی کے حکم پر نہیں اپنی خوشی سے کررہے تھے اوراس لیے کررہے تھے کہ ان کے شہر میں ایک طویل عرصے کے بعد ایک ایسی محفل منعقد ہورہی تھی جو انہیں اس زمانے میں لے گئی تھی جب کیف انصاری اور محسن نقوی ایسی تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان کا یہ مشاعرہ ایک ایسی روایت کاتسلسل تھا جواس خطے میں برس ہا برس سے موجودہے ۔ اور اس مشاعرے میں حاضرین جب شعراءکو داد دیتے تھے تو ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی آواز میں کیف انصاری اور محسن نقوی کی آواز بھی شامل ہے۔
واپسی کا سفر اگلے روز امجد اسلام امجد ،زاہد فخری اورشوکت فہمی کے ہمراہ ہوا اور ملتان پہنچ کر ہمیں ملال ہوا کہ ہم نے مشاعرے میں جاتے ہوئے یہ راستہ اختیار کیوں نہیں کیا تھا۔لیکن پھر خیال آیا کہ اگر ہم یہ راستہ اختیار کرلیتے تو ہمیں مصطفی زیدی کی یاد کیسے آتی۔
( بشکریہ : روزنامہ نئی بات )
فیس بک کمینٹ